روپے کی قدر میں حیرت انگیز اضافہ
کراچی: اوپن اور انٹر بینک مارکیٹوں میں ڈالر کی قیمت ایک سو تین روپے سے مزید نیچے گرجانے سے جمعہ کے روز بہت سے ایکسپورٹرز دن بھر لاکھوں ڈالرز کی فروخت کے لیے قطارمیں کھڑے رہے۔
ڈالر کی قدر میں تیزی سے آنے والی اس گراوٹ نے ایسے ایکسپورٹرز کو خوفزدہ کردیا تھا، جنہوں نے اپنے ڈالرز کو سرمائے کے گردشی نظام سے نکال کر اس امید پر علیحدہ رکھ دیا تھا کہ اس کی قیمت میں اضافے سے انہیں بھاری منافع حاصل ہوسکے گا۔
ہفتے کو بیشتر اداروں میں تعطیل ہونے کی وجہ سے جمعہ کا دن کاروباری سرگرمیوں کے لیے ہفتے کا آخری دن تھا، اور اس دن گراوٹ کے اس نئے رجحان کو دیکھتے ہوئے ایکسپورٹرز کے اعصاب جواب دے گئے تھے۔ جمعہ کے روز انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر ایک سو دو روپے نوّے یا پچانوے پیسے کی شرح سے فروخت کیا گیا۔
انٹر بینک مارکیٹ کے ایک کرنسی ڈیلر عاطف احمد نے کہا ’’جمعہ کا دن ایکسپورٹرز کا دن تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے پاس ڈالرز کی فروخت کے لیے یہ آخری دن ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماہرین نے توقع ظاہر کی تھی کہ آنے والے دنوں میں ڈالر کی قیمت میں مزید گراوٹ آئے گی۔‘‘
بہتر منافع کی امید کے لیے ایکسپورٹرز کو زیادہ سے زیادہ ایک سو تیس دن ڈالرز کو روک کر رکھنے کی اجازت ہے، لیکن پچھلے پانچ روز کے دوران ڈالر میں ڈھائی روپے تک کی گراوٹ آئی ہے۔
ڈالر کی قیمت میں ایسی بھاری گراوٹ سے پہلے اس کی شرح مبادلہ تقریباً دو ماہ کے عرصے کے دوران ایک سو پانچ سے ایک سو چھ روپے پر مستحکم رہی تھی۔
کرنسی ڈیلروں اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِ خزانہ نے ڈالر کی قیمت کو نیچے لاکر ایک تاریخ رقم کی ہے، جسے بینکارناممکن سمجھتے تھے۔
ایک بینکار نے کہا ’’وزیرِ خزانہ نے ڈالر کی شرح مبادلہ کو ایک سو بارہ روپے سے ایک سو تین پر لاکر ایک نیا رجحان مقرر کردیا ہے، خاص طور پر جب کہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر قابلِ اطمینان سطح سے اب بھی نیچے ہیں۔‘‘
ڈالر کی شرح مبادلہ میں آنے والی اس قدر تیز رفتار گراوٹ نے بینکوں کو شدید دھچکا لگا ہے، اس لیے کہ ان کے پاس جمع اربوں روپے کے ڈالرز کی قیمت کم ہوگئی ہے۔ بینکوں کے پاس چار اعشاریہ آٹھ ارب ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں۔
بینکاروں اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں کمی کے اس رجحان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈالر جلد ہی سو روپے فی ڈالر کی شرح مبادلہ تک پہنچ جائے گا۔
ایک کرنسی ڈیلر کا کہنا ہے کہ ’’مارکیٹ میں اب فی ڈالر ایک سو روپے کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں رہی۔‘‘
وزیرِ خزانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ڈالر کو اٹھانوے روپے کی شرح مبادلہ تک واپس لے آئیں گے، یہ اس وقت کی شرح ہے جب اسلام آباد میں نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا۔
بینکاروں کے مطابق اس نئے رجحان نے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کو ایک سبق سکھایا ہے۔
امپورٹرز باربار ڈالرز کی خریداری کے ذریعے مارکیٹ میں پھیلے خودف کو دور کرتے ہیں، جبکہ ایکسپورٹرز مارکیٹ سے ڈالرز کو غائب کردیتے ہیں، جب اس کی ضرورت ہوتی ہے۔