پاکستان

’کے پی میں 39 عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم‘

خیبرپختونخوا میں حکومتی اور حزبِ اختلاف کی پارلیمانی پارٹیز کے رہنماؤں کو دی جانے والی ایک بریفنگ میں یہ انکشاف کیا گیا۔

پشاور: خیبر پختونخوا سمبلی میں حکومتی اور حزبِ اختلاف کی پارلیمانی پارٹیوں کے رہنما صوبے میں جاری سیکیورٹی کی صورتحال پر تبادلۂ خیال کے لیے ایک بند کمرے کے اجلاس کے دوران اس صورتحال کے ذمہ داری ایک دوسرے کے منڈھتے رہے۔

ذرائع کے مطابق اعلٰی حکام نے پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کو امن و امان کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دی، انہوں نے بتایا کہ 39 عسکریت پسند تنظیمیں صوبے کے اندر کام کررہی ہیں، جبکہ پاکستانی طالبان کی آڑ لے کر کام کرنے والے بیس دیگر گروپس بھتّہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملؤث ہیں۔

تین گھنٹے سے زیادہ وقت تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک، قائدِ حزبِ اختلاف سردار مہتاب احمد خان، قومی وطن پارٹی کے سکندر خان شیر پاؤ، جماعت اسلامی کے سراج الحق، عوامی جمہوری اتحاد پاکستان کے شہرام خان ترہ کئی، عوامی نیشنل پارٹی کے سردار حسین بابک، جمیعت علمائے اسلام فضل کے مولانا لطف الرحمان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے محمد علی شاہ باچہ نے شرکت کی۔

انسپکٹر جنرل پولیس ناصر درّانی اور داخلہ اور قبائلی امور کے سیکریٹری اختر علی شاہ نے سیاسی قیادت کو صوبے کی انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی کے بارے میں بریفنگ دی۔

یہ بات علم میں آئی ہے کہ حکام نے انکشاف کیا کہ 39 عسکریت پسند گروپس صوبے میں کام کررہے ہیں، جبکہ بیس سے زیادہ جرائم پیشہ گروہ بھتہ خوری، ٹارگٹڈ کلنگ اور دیگر ہائی پروفائل جرائم میں بھی طالبان کے نام کی آڑ لے کر ملؤث ہیں۔

حکام نے پارلیمانی لیڈروں کو بتایا کہ انسدادِ دہشت گردی فورس صوبے میں تیار کی جارہی ہے، جسے ہائی ٹیک آلات اور ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا۔

ان کے مطابق تیس سراغرساں کتے پولیس کے لیے خرید لیے گئے ہیں، لیکن ان سے کام لینے والے ہینڈلرز کی بھرتی ہونا باقی ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ جاری امن مذاکرات کے بارے میں صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔

ذرائع کے مطابق حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے حکومت سے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنے کے واقعہ کی انکوائری رپورٹ انہیں بھی پیش کی جائے۔

یاد رہے کہ جولائی 2013ء میں عسکریت پسندوں نے اس جیل پر حملہ کر کے دوہزار پچاس قیدیوں کو آزاد کردیا تھا، جن میں تیس مشتبہ دہشت گرد بھی شامل تھے۔

حکومت نے اس واقعہ کی تفتیش کے لیے ایک اعلٰی سطح کی کمیٹی تشکیل دی تھی، تاہم اس کی انکوائری رپورٹ ابھی عوام کے سامنے آنا باقی ہے۔ پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کا اگلا اجلاس سات مارچ کو منعقد ہوگا، جس میں حزبِ اختلاف صوبے میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کرے گی۔