نقطہ نظر

ٹی ٹی پی جنگ بندی

طالبان کی چال ہوسکتی ہے، حملے جاری تو پھر جنگ بندی بے معنیٰ، ریاست جلدبازی نہ کرے۔

فیصلہ زیادہ آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی جانب سےسنیچر کو اعلان کردہ جنگ بندی نے بہت سے سوالات بنا جواب دیے چھوڑدیے ہیں لیکن کم از کم یہ بہت واضح ہے: طالبان کی آنکھیں چکا چوند ہوچکیں اور ایسا پاکستانی ریاست کے ٹھوس اور بھرپور جواب دینے کی وجہ سے ہوا ہے۔

پولیو ٹیم کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور فوج کی گولہ باری کے بعد واضح ہوگیا تھا کہ اگرتشدد بدستور جاری رہتا ہے تو پھر حکومت مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ سیاستدان اور فوج، تمام عناصر طالبان کو محدود کرنے اور انہیں پیچھے دھکیلنے کی خاطر بھرپور قوت کے استعمال پر آمادہ تھے۔

اس بات کو مذاکرات کے سب سے بڑے حامی، سیاسی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے، بتدریج اس حقیقت کےاعتراف سے بھی مدد ملی کہ عسکریت پسندوں کی پُرتشدد کارروائیوں کے ماحول میں مذاکرات کا جاری رہنا بہت مشکل ہے۔

اس کے بعد، وہاں طالبان کے پاس کوئی چارہ نہ رہا: اگر عسکریت پسند اور دہشت گرد اپنی پُرتشدد کارروائیاں بدستور جاری رکھتے تو پھر ردِ عمل میں ریاست کے سخت اور بڑھتے حملوں سے ان گروہوں کو شدید نقصانات پہنچتے۔ جنگ بندی کے بعد، چھوٹی سی پسپائی اختیار کرکے طالبان کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس لمحے، یہ جاننا مشکل ہے۔

ایک کے لیے، جنگ بندی فوری طور پرتعطل کا شکار مذاکرات کی بحالی کی جانب نہیں لے جاسکتی۔ بلاشبہ، ایک مضبوط ریاستی نقطہ نظر سے، عسکریت پسند گروہوں کو چاہیے کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے، سب سے پہلے اس پر عمل کر کے دکھائیں اور اپنے ذیلی گروہوں اور ان سے منسلک تنظیموں کو اپنے کہے کا پابند کریں۔

اگر حملے جاری رہتے ہیں، اور جیسا کہ وہ ماضی میں بھی کرچکے کہ اپنے کسی ذیلی گروہ یا تنظیم کی طرف سے کیے گئے کسی خاص حملے کی مذمت کیے بغیر، طالبان سادہ الفاظ میں دعویٰ کردیتے ہیں کہ وہ ان حملوں کے ذمہ دار نہیں تو پھر جنگ بندی بے معنیٰ ہوجائے گی۔

اس بات کی تصدیق کیے بغیر کہ آیا ٹی ٹی پی واقعی تیار ہے اور جنگ بندی موثر رکھنے کو یقینی بناچکی، فوری طور پر مذاکرات کی بحالی سے، ریاست نے حالیہ ہفتوں میں جو موقف اختیار کرکے کامیابی حاصل کی ہے، وہ ضائع ہوجائے گی۔

ایک کے لیے، مذاکراتی عمل بنا ڈیڈ لائن کے نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا، حکومت اصرار کرے کہ اس کے نتیجے میں جو بھی معاہدہ ہوگا وہ مقامی سطح تک محدود ہوگا اور سب سے اہم یہ کہ مذاکرات آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ہی کیے جائیں گے۔ وہاں مشترکہ قدر تلاش کی جائیں اور بلاشبہ یہ تلاش بھی کی جاسکتی ہیں تاہم بحث لامحدود نہیں ہونی چاہیے۔

بہرحال کچھ بھی ہو، ریاست کو جنگ بندی پر محتاط ہی رہنا چاہیے۔ اس سے قبل کہ ریاست ایک بار پھر بھرپور قوت سے ان کی کلائی پر ہاتھ ڈالے، یہ طالبان کی طرف سے قیادت کی کہیں اور منتقلی اور خود کو منظم کرنے کی بھی چال ہوسکتی ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنے والے دنوں میں نئے سرپرائز ملیں گے، کئی موڑ آئیں گے، سربستہ راز کہانی کے کئی اسرار کھلیں گے، اور یہ بات بھی سامنے آسکے گی کہ کس طرح ان عسکریت پسند گروہوں سے نمٹا جائے۔

غلط یا نا ممکن بات کچھ بھی ہو، پاکستانی ریاست طویل عرصے تک جواب سے گریزاں رہی۔ بہرحال، وہاں سرنگ کے خاتمے پر روشنی ضرور موجود ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار