فوجی مداخلت
سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے بعد سے، سیاستدانوں نے ملک کے اندر جمہوریت کو مضبوط تر کیا ہے اور اب وہ کسی بھی ماورائے آئین مداخلت کے خلاف متحد کھڑے نظر آتے ہیں۔
اگرچہ سیاسی طبقے کو سخت فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ کا مرتکب ٹھہرایا جاسکتا ہے لیکن سول معاملات میں برسوں طویل آمریت اور فوجی مداخلت نے یہ سبق سکھایا ہے کہ جمہوری اقدار کی پاسداری کیوں ضروری ہے۔
اس تناظر میں، حکومت کی طرف سے طالبان کے خلاف فوج استعمال نہ کرنے پر، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی جانب سے فوجی مداخلت پر زور دینا افسوسناک ہے۔
یہ سچ ہے کہ لاقانونیت پر قائم یہ گروہ پورے ملک میں خوفناک دہشت گردی پھیلارہا ہے۔ فوجیوں اور شہریوں سمیت ہزاروں پاکستانی ان کی خوں ریزی میں لقمہ اجل بن چکے۔ اسکول، مساجد، بازار اور سیکیورٹی تنصیبات، یہ تمام ان کا نشانہ بنے ہیں۔
یہاں اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں کہ ملک کے اندر سے عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے لیکن بلاشبہ، یہ ملک کے منتخب عوامی نمائندے ہی ہیں جنہیں اس راہ پر قیادت کرنی ہے اور وہ فیصلے کرنے ہیں، جن پر فوج عمل کرے۔
یہ حقیقت ہے کہ فوج کی رائے شامل کیے بغیر عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی حکمتِ عملی مکمل نہیں ہوگی لیکن کسی بھی جمہوریت میں، حتمی فیصلہ پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندے ہی کرتے ہیں۔
خود جناب الطاف حسین کی جماعت ایک سے زیادہ مرتبہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کے آپریشن بھگت چکی ہے، لہٰذا ایسے میں، اُن کی طرف سے فوج کو مداخلت کی دعوت دینا بدقسمتی کی بات ہے۔
ان کی جانب سے یہ کہنا کہ ملک جمہوریت سے زیادہ اہم ہے، تاریخ کی روشنی میں یہ دلیل نہیں ٹھہرتی۔ فوجی حکمرانوں نے ملک کو مضبوط کرنے کے بجائے ہمیشہ کمزور ہی کیا ہے۔
ایک فوجی آمر نے پہلے کا آئین ہی منسوخ کردیا تھا۔ دو نے اپنی پسند کے مطابق تقریباً ایک، ایک دہائی تک آئین کو توڑا مروڑا، جس کے بعد ہی وہ منتخب اسمبلیوں کے سامنے پیش ہوا، جو بنیادی قوانین کو اصل شکل میں ترتیب دینےکی اہل ہے۔
جناب الطاف حسین کی جماعت قومی اور صوبائی اسمبلی میں ارکان کی اچھی خاصی نمائندگی رکھتی ہے لیکن اُن کے اس طرح کے بیان سے، پر پھیلائے کھڑی، آئین مخالف قوتوں کو غلط پیغام جائے گا۔
یہ تو طالبان ہیں جو آئین کو اٹھا کر پھینک دینا چاہتے ہیں؛ لیکن بالغ سیاسی جماعتیں، چاہے ان کی دلیل مختلف ہی کیوں نہ ہو، بہر طور، وہ سادہ معنوں میں ایسا ہوتا ہرگز نہیں دیکھنا چاہیں گی۔