میانمار حکومت روہنگیا مخالف پالیسی پر عمل پیرا
ینگون: ایک خودمختار انسانی حقوق کے گروپ نے کہا ہے کہ اسے ایک سرکاری دستاویز حاصل ہوئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میانمار کی حکومت اس ملک میں طویل عرصے سے ظلم و ستم کا شکار چلے آرہے مسلمان اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے میں براہِ راست ملؤث ہے۔
جنوب مشرقی ایشیاء کے فورٹی فائی رائٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میتھیو اسمتھ نے کہا کہ ایک درجن سے زائد لیک ہونے والے سرکاری اور عوامی ریکارڈز کی تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ ان مسلمانوں کے سفر،مکان کی مرمت، شادی اور خاندان پر پابندیاں عائد ہیں۔
انہوں نے کہا ان پالیسیوں کا علم تو طویل عرصے سے تھا، بعض معاملات کئی دہائی پرانی تاریخوں کے ہیں، یہ پہلا موقع ہے کہ یہ سرکاری احکامات عوام کے سامنے آسکیں ہیں۔انہوں نے وضاحت کی کہ محض ان معاملات کو تحریری صورت میں دیکھنے سے دل لرز جاتا ہے۔
میتھیو اسمتھ نے کہا کہ ’’یہ میانمار کے حکام کی معلومات اور منصوبہ بندی کی سطح کو ظاہر کرتے ہیں، کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم کی سطح سے بڑھ کر ظلم کررہے ہیں۔ یہ ظلم و ستم بلاخوف و خطر کئی سالوں سے جاری ہے۔‘‘
صدارتی ترجمان سے جب اس پر تبصرے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا، لیکن میانمار ٹائمز نے سرکاری حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’وہ بنگالی روہنگیا کی لابی کرنے والے گروپس کے بے بنیاد الزامات پر تبصرہ نہیں کرتے۔‘‘
میانمار میں بدھسٹ اکثریت میں ہیں جن کی آبادی چھ کروڑ کے قریب ہے، نصف صدی کی سفاکانہ فوجی حکمرانی کے بعد حال ہی میں جمہوریت کا اقتدار کی ناہموار منتقلی کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس کے بعد ہی فرقہ وارانہ فسادات بھی شروع ہوگئے۔
زیادہ سے زیادہ 280 افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں، ان میں سے اکثریت روہنگیا مسلمانوں کی تھی جن پر بدھسٹ افراد کے ہجوم نے حملہ کیا تھا، اور دوسری جانب ایک لاکھ چالیس ہزار افراد کو ان کے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔
روہنگیا کے لیے کوئی جگہ نہیں، جنہیں اقوامِ متحدہ نے دنیا میں سب سے زیادہ ظلم کا شکار مذہبی اقلیتوں میں سے ایک قرار دایا ہے۔ ان میں سے بہت سے خلیج بنگال کے ساحل کے ساتھ واقع راکھائن ریاست سے تعلق رکھتے ہیں، جو ایک پہاڑی سلسلے کے ذریعے ملک کے باقی حصے سے الگ تھلگ ہے۔
یہ تقریباً پورے میانمار کے تیرہ لاکھ روہنگیا کا وطن ہے۔ اگرچہ حکومت انہیں بنگلہ دیشی قرار دے کر انہیں شہریت دینے سے انکار کرتی ہے۔
ایک خفیہ دستاویز جو 79 صفحات کی رپورٹ میں شایع ہوئی ہے، یہ انکشاف کرتی ہے کہ راکھائن ریاست کے حکام کی جانب سے 1993ء سے 2008ء کے دوران جاری کیے گئے سرکاری احکامات میں روہنگیا پر پابندیوں کی ریاستی پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔کچھ علاقائی احکامات بھی ایسے ہیں جو 1993ء، 2005ء اور 2008ء کے دوران ریاست اور مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں آنے والے مختلف محکموں کو جاری کیے گئے۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ مانگدا اور بٹھی ڈانگ کے قصبوں میں دو بچوں کی پالیسی کا حکم ہے، روہنگیا کو شادی کے لیے بھی اجازت لینی پڑتی ہے۔
ایک دستاویز میں حکام کو دی گئی ہدایات کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی حقیقی ماں کی تصدیق کے لیے انہیں سرِ عام اس بچے کو دودھ پلانے کا حکم دیا جاتا ہے، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کہیں وہ کسی دوسرے کے بچے کو اپنا بچہ ظاہر کرنے کی کوشش تو نہیں کررہی ہیں۔