پاکستان

سات لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے: سپریم کورٹ

عدالت نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو ان ساتوں افراد کے ساتھ ان کے عزیزوں کو بھی دورانِ سماعت پیش کرنے کی ہدایت کی۔

اسلام آباد: منگل پچیس فروری کو سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو حکم دیا کہ وہ 35 لاپتہ افراد کو چار کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں پیش کرے، جس طرح اتنی ہی تعداد میں لاپتہ افراد کو سات دسمبر 2013ء کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

سات افراد ان پینتیس افراد کے ساتھ تھے جو ستمبر 2011ء میں لاپتہ ہوئے تھے، جب خیال کیا جارہا تھا کہ فوجی حکام نے انہیں مالاکنڈ کے حراستی مرکز میں منتقل کردیا ہے۔

یہ پینتیس افراد یاسین شاہ سمیت ان 66 افراد می شامل تھے، جن کے بارے میں واضح نہیں ہوسکا تھا کہ وہ زیرِ حراست ہیں یا نہیں، ان کی گمشدگی کی درخواست عدالت میں دائر کردی گئی تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں ایک دو رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

اس پہلے کی سماعت کے دوران کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ بعد میں ان میں سے اکتیس افراد کو زیرِ حراست قرار دے دیا گیا تھا اور باقی پینتیس کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ ان میں سے دو افراد قدرتی وجوہات کی بناء پر حراستی مرکز میں وفات پاگئے تھے، ایک سعودی عرب اور گیارہ افغانستان چلے گئے تھے۔

سات افراد کے ایک گروپ میں سے پانچ آزاد ہیں ، اور دو حراستی مرکز میں ہیں، جنہیں عدالت کی اِن کیمرہ سماعت کے دوران پیش کیا جائے گا، اور عدالت کے رجسٹرار نے اس کے انتظامات کا حکم دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی کو ہدایت کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی مدد سے لاپتہ افراد کی عدالت میں پیشی کے وقت ان کے تحفظ کے لیے انتظامات کریں۔

ان ساتوں افراد کی شناخت کا پتہ لگانے کے لیے ان کے رشتہ داروں کی عدالت میں موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا، اور ان سے ایک جج کی جانب سے پوچھ گچھ کی جائے گی، بالکل اسی طرح، جیسے گزشتہ سال سات افراد کی عدالت میں پیشی کے وقت ان کے ہمراہ ان کے رشتہ داروں کو بھی پیش کیا گیا تھا۔

لاپتہ افراد کی عدالت میں پیشی کا حکم اس وقت دیا گیا جب اٹارنی جنر ل نے ایک کمیٹی کی پانچ صفحات پر مشتمل ایک انکوائری رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا تھا کہ چار سو سے زیادہ پاکستانی شہریوں کے متعلق خدشہ ہے کہ وہ افغانستان کی جیلوں میں قید ہیں۔

اس کے علاوہ عسکریت پسندوں اور اُن کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد پڑوسی ملک کے صوبے کنڑ میں اندرونی طور پر نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کے کیمپ میں مقیم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں لوگوں کے بارے میں دستاویزات حاصل کرنے کی کوششیں اس لیے کی گئیں کہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ یہ پینتیس لاپتہ افراد ان کے ساتھ تو نہیں تھے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے بہت سے ساتھیوں نے حراستی مرکز سے رہا ہونے کے بعد مبینہ طور پر ان عسکریت پسند گروپس میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلی تھی اور افغانستان فرار ہوگئے تھے۔

انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق مولانا فضل اللہ اور مولوی فقیر محمد اپنے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ افغانستان میں روپوش ہیں، جہاں سے وہ دیر اور چترال میں سیکیورٹی فورسز اور سول انتظامیہ کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہیں، ان حملوں میں بہت سے عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ انکوائری کے دوران یہ نوٹ کیا گیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں، پولیس، لیویز اور سیاسی انتظامیہ دہشت گردی سے نمٹتے وقت اپنے اختیارات سے تجاوز کرجاتی تھیں۔

خیبر پختونخوا کی حکومت نے عدالت سے لاپتہ افراد بشمول یاسین شاہ کا حوالے دیتے ہوئے درخواست کی کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے کمیشن اپنی کوششیں ان افراد کی بازیابی پر اپنی مرکوز کرنے کرے۔

قیدیوں کی وطن واپسی کے لیے درخواست دائر:

اس کے علاوہ منگل کے روز ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت میں دو درخواستیں دائر کیں۔

ان میں سے ایک اڈیالہ جیل میں قید باون غیرملکی قیدیوں کی ان کے ملکوں کو واپسی سے متعلق تھی، حالانکہ ان کی سزا کی مدت کو دو سے چھ سال گزر چکے ہیں۔

ان قیدیوں کا تعلق ایران، انڈیا، تنزانیہ، کویت، ڈومینیکن ریپبلک، نائجیریا اور دیگر ملکوں سے ہے۔ ان میں سے 27 قیدیوں کا تعلق ان ملکوں سے ہے، جن کے سفارتخانے اسلام آباد میں موجود نہیں ہیں۔

درخواست گزار نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی کہ ان قیدیوں کو ان کے آبائی ملک بھیجنے میں تاخیر کی وجوہات جاننے کے لے ایک انکوائری کی ہدایت کی جائے۔

دوسری درخواست میں آمنہ مسعود نے چین کی جیلوں میں پڑے ہوئے 290 پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کے لیے سفارتی کوششوں کی استدعا کی۔