ہمارے پاس دفاع کے لیے کیا ہے؟
کراچی: پانچ سالہ بچی نے اپنا منہ کھولا اور خالی آنکھوں سے آسمان کی جانب دیکھنے لگی، اس سے محض پانچ سال بڑی ایک اور لڑکی پولیو سے بچاؤ کے دو قطرے اس کے منہ میں ڈالے۔ جیسے ہی وہ قطرے پلا کر فارغ ہوئی، ایک تھکا ماندہ پولیس اہلکار اس کو لے کر آگے بڑھ گیا کیونکہ گڈاپ ٹاؤن کی افغان بستی میں مزید گھروں میں یہ قطرے پلانے باقی تھے۔
وہ تنگ و تاریک آڑی ترچھی گلیوں میں قریب قریب بنے مکانوں کے پاس سے گز رہے تھے، جہاں گرد سے اٹی گلیوں میں کچے مکانوں کے باہر بچے بیٹھے تھے۔
انہوں نے گھر گھر جا کر دستک دی جہاں اکثر جگہوں سے انہیں مایوس لوٹنا پڑا جبکہ خوش آمدید کہنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔
پولیس اہلکار اور بچے کو پولیو مہم میں شامل مزید 30 افراد نے جوائن کر لیا، ان میں بیشتر کی عمر دس سال کے لگ بھگ تھی جنہوں نے اپنے کاندھوں پر پولیو ویکسین کے بیگ ٹانگ رکھے تھے۔
ان ٹیموں کے پیچھے دو پولیس موبائل بھی موجود تھیں جس میں پولیس افسران سیٹوں سے چپکے ہوئے تھے جس پر خواتین رضاکاروں نے دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑے جانے پر انتہائی مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
ان میں سے ایک خاتون نے پولیس افسر سے ان کے ساتھ چلنے پر زور دیا تھا۔
کالے برقع میں ملبوس 20 سال یا اس سے کچھ زائد عمر کی ٹیم انچارج فردوس ٹشو پیپر سے اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے چیخ چیخ کر اپنی ٹیم پر ساتھ ساتھ رہنے کے لیے زور دے رہی تھیں۔
بطور انچارج پانچویں سال فرائض انجام دینے والی فردوس نے ٹیم میں بچوں کی موجودگی پر دفاعی انداز اختیار کیا۔
انہوں نے کہا کہ 'بتائیں میں کیا کر سکتی ہوں؟ میں نے جس سے بھی رابطہ کیا، اس نے یہاں آنے سے منع کردیا۔ یہ خواتین اور بچے آپ یہاں دیکھ رہے ہیں، صرف انہوں نے یہاں آنے پر آمادگی ظاہر کی' اور اسی لمحے ایک پولیس اہلکار نے انہیں یاد دہانی کرائی کہ وہ قریبی گھر کے اندر جانے والی بچی کا احوال معلوم کریں۔
اہلکار نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے ٹیم انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے اسے گھر سے باہر آتے نہیں دیکھا، پھر ہم پر الزام عائد مت کیجیے گا، گھر کے اندر جانے کا کیا جواز ہے'۔
افغان بستی کو جانے والا یہ گنجان اور تنگ راستہ اتنا ہی خطرناک ہے جتنا یہاں کے مکیں، گڈاپ ٹاؤن کی یو سی 4 میں واقع یہ علاقہ اب تک پولیو مہم کے دوران سب سے زیادہ غیر مستحکم علاقہ ہے۔
ہفتے کو مہم کے آغاز کے ساتھ ہی مچھر کالونی کے کچھ مکینوں نے پولیو ٹیم کو انتہائی دیدہ دلیری سے علاقہ چھوڑنے کی دھمکیاں دیں۔
ایک خاتون رکن نے کہا کہ ہم جتنا خاموشی سے ہوسکا، یہاں سے نکل جائیں گے اور ان کے لہجے میں جلد بازی صاف دکھائی دیتی تھی۔
اگر انہوں نے بندوقیں نکال لیں تو کیا ہو گا؟، اور اپنے نیلے رنگ کے پولیو ویکسین تھرماس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس دفاع کے لیے کیا ہے؟'۔
فردوس نے بتایا کہ تیس تیس ارکان پر مشتمل 15 ٹیمیں کو خصوصی طور پر افغان بستی میں تعینات کیا گیا ہے، رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے والوں کو پانچ سو روپے کمیشن دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
بیڑی کا کش لیتے ہوئے ایک خاتون نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ نومبر میں اسی نوعیت کے کام کے لیے 250 روپے دینے کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک ادا نہیں کیے گئے۔
ایک اور خاتون نے کہا کہ انہیں اگلے اتوار کو ہونے والی مہم کے لیے کوئی اور ارکان ڈھونڈنے دو۔
ساتھ ہی کھڑی کرن نامی 17 سالہ لڑکی نے کہا کہ اس کام سے منع کرنے کا مطلب ہے کہ جو تھوڑی بہت آمدنی کی امید ہے اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں، انہوں نے دانت پیستے ہوئے کہا کہ میں نے ٹیم میں کام کرنے کے حوالے سے اپنے والد کو بھی نہیں بتایا۔
اپنے والد کے بارے میں کرن نے مزید بتایا کہ حب چوکی کے قریب ایک دور دراز کلینک پر چوکیدار کا کام کرنے والے میرے والد کو اس بارے کچھ علم نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے سات سال قبل اپنی ماں کھو دی تھی اور اپنے والد کو پیسے کے لیے جدوجہد کرتے دیکھا۔،مجھے بتایا گیا کہ اسی پیسے سے جڑنا ہے اور پھر اپنی ٹیم لیڈر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر ایک دن میں بھی فردوس کی طرح فیلڈ انچارج بن جاؤں گی۔
اسی لمحے ایک خاتون نے خاموشی سے ٹیم انچارج کو آ کر بتایا کہ کچھ خواتین نے انہیں گھر کے اندر آنے سے منع کر دیا ہے۔
اس نے مہم کے بعد چارٹ شیٹ پر نشان لگاتی فردوس سے پوچھا کہ 'وہ ہم سے ہمارا گورنمنٹ کارڈ مانگ رہے ہیں جو ہم میں سے کسی کے پاس نہیں، کیا میں انہیں اپنی شیٹیں دکھا سکتی ہوں؟