پاکستان

ملک میں بڑے پیمانے پر دہشت گرد حملوں کا خطرہ

یہ بات قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کو وزارتِ داخلہ کی جانب سےدی گئی ایک پریزنٹیشن میں بتائی گئی۔

اسلام آباد: وزارتِ داخلہ نے بدھ 19 فروری کو خبردار کیا ہے کہ دہشت گردوں کے حملے ملک بھر میں بڑے پیمانے پھیلنے کا خطرہ ہے، اور کہا گیا ہے کہ مشرقی و مغربی سرحدوں کے پار سے دہشت گردوں کی دراندازی اور اسلحے کی فراہمی مسلسل جاری ہے۔

قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے ایک پریزنٹیشن دیتے ہوئے وزارتِ داخلہ کے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کے ڈائریکٹر طارق لودھی نے کہا کہ پنجاب کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) اور دیگر کالعدم تنظیموں کی جانب سے جبکہ سندھ میں قوم پرستوں، القاعدہ، ٹی ٹی پی اور لشکرجھنگوی، نسلی دہشت گردی، ٹارگٹڈ کلنگ اور جرائم پیشہ عناصر کے گروہوں سے خطرات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو القاعدہ، ٹی ٹی پی، لشکرجھنگوی اور تقریباً ایک درجن بلوچ عسکریت پسند گروپس سے خطرات لاحق ہیں۔ خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائللی علاقوں میں ٹی ٹی پی، القاعدہ، لشکرِ جھنگوی اور بیرونی امداد سے کی جانے والی دہشت گردی کا سامنا ہے۔

گلگت بلتستان میں ٹی ٹی پی اور فرقہ پرست گروپس ، جن میں لشکرِ جھنگوی بھی شامل ہے، جبکہ آزادجموں و کشمیر میں ہندوستان کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں۔

طارق لودھی نے کہا کہ اسلام آباد ’’انتہائی خطرناک شہر‘‘ بننے والا ہے اور اس کی وجہ کالعدم تنظیموں اور دیگر فیکٹرز کی اس شہر میں موجودگی ہے۔ یہ شہر کالعدم تنظیموں بشمول القاعدہ، ٹی ٹی پی اور لشکرِ جھنگوی کے اراکین کے لیے گویا ایک آرام گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔

نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل نے واضح کیا کہ سرحد پار جرائم پیشہ عناصر، ایساف اور نیٹو فوجیوں کی موجودگی اور افغانستان میں عدم استحکام، پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملے، غیرملکی دشمن ایجنسیوں کی سرحد پار دہشت گردی، افغانستان میں ہندوستانی خفیہ انٹیلی جنس عناصر اور ہندوستان کی کشمیر کے مسئلے پر سرد جنگ کا ردّعمل ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال سنگین تر ہوگئی ہے۔

قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو مطلع کیا گیا کہ چھ ہزار سات سو اٹھاسی افراد جن میں سے اکثر پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں، ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل تھے۔

ایک سوال کے جواب میں ایک اہلکار نے کہا کہ ان اعداد و شمار کا اشتراک کسی بھی غیرملکی ایجنسی سے نہیں کیا گیا تھا۔

وزیرِ مملکت برائے امورِ داخلہ بلیغ الرحمان نے اس اجلاس کو بتایا کہ قومی سلامتی کی پالیسی جو منظور نہیں کی گئی تھی، جوابی نقطہ نظر کے بجائے اب تک اس کی توجہ پیش بندی اور پیش قدمی کے اقدامات پر مرکوز ہے۔انہوں نے کہا کہ دو درجن سے زیادہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ معلومات کے اشتراک کے ایک طریقہ کار فراہم کرتی تاکہ جہاں بھی ضرورت ہو فوری کارروائی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ امن و امان کو برقرار رکھنا صوبوں کی ذمہ داری ہے، اور وفاق جب بھی ضرورت پڑتی ہے، ہمیشہ مدد کرتا رہا ہے۔

فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل غالب بندش نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے میں تقریباً بارہ سو اسامیاں جو منظور کی گئی تھیں اب تک خالی پڑی ہیں۔

یہ ایجنسی ہتھیاروں اور دیگر سازوسامان کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کے پاس صرف 80 مشین گنیں ہیں، جبکہ اس کی ضرورت چار سو ہے، اور نائن ایم ایم کی پینتیس پستول ہیں، جبکہ پانچ سو کی ضرورت ہے۔

ایف آئی اے کو مالی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اس کو حالیہ مالی سال کے لیے 356.863 ملین روپے کی ضرورت تھی، لیکن اس کے لیے صرف 169.863 ملین روپے مختص کیے گئے۔

اس اجلاس کے دوران اس وقت ماحول کشیدہ ہوگیا جب ایم کیو ایم کے نبیل گبول نے کہا کہ موجودہ صورتحال کا تقاضہ ہے کہ ملک میں ہنگامی حالت نافذ کردی جائے۔ اس وقت سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا، جب مسلم لیگ نون تہمینہ دولتانہ نے ان کی تجویز کو مسترد کردیا اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر بیرون ملک قیام کرنے پر تنقید کی۔

نبیل گبول نے ردّعمل میں کہا کہ ’’آپ کے لیڈر بھی ایک معاہدہ کے بعد سعودی عرب گئے تھے۔‘‘