نقطہ نظر

ڈائریکٹری برائے شرم

ارکان پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری، ایسی سرکاری فہرست جس سے صرف شرم دلائی جاسکتی ہے۔

یہ طویل عرصے سے پاکستان کے کھلے راز ہیں۔ بعض سرکاری حلقوں اور خود اسے سیاہ و سفید میں دیکھنے پر، منتخب نمائندوں کی جانب سے ٹیکس ادائیگی سے بچنے کے مسئلے کی، نئی جہتیں سامنے آئی ہیں۔ وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے حکم پر، فیڈرل بورڈ آف روینیو کی شائع کردہ، ارکانِ پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری واقعی شرمناک فہرست ہے۔

اس ڈائریکٹری پر شرم آنی چاہیے وہ اس پورے معاملے کو نظر انداز کرکے قومی توجہ ہٹانے کے لیے صرف اگلے بحران کا ہی انتظار کریں گے۔

ملک کے منتخب نمائندوں نے جو بے معنیٰ انکم ٹیکس ادا کیا، اس سے تین بنیادی مسائل جنم لیتے ہیں۔

اول، ٹیکس گوشوارے جمع کرانا ایک قانونی ضرورت ہے لیکن ارکانِ پارلیمنٹ کی نظر سے دیکھیں تو اس پورے عمل کو ایک اختیاری یا بے معنیٰ مشق کے طور پر لیا گیا، بالکل اسی طرح جیسے ٹیکس دہندگان کی اکثریت کرتی ہے۔

اس مسئلے کو ٹھیک کرنے کے لیے ٹیکس نادہندگان کے خلاف تادیبی مہم کے بعد، ٹیکس گوشوارے جمع کرنے والوں کی قانونی ذمہ داریوں کے بارے میں آگاہی اور تربیت کی خاطر مہم چلائی جائے۔

دیگر دو مسائل وہاں پر موجود ہیں، جہاں مسائل کا انبار ہے۔ ریاست کس طرح انکم ٹیکس وصولی کا موثر طریقہ کار تشکیل دے سکتی ہے کہ جب وہ لوگ جن پر قانون سازی اور انتظامیہ کی نگرانی کی ذمہ داریاں ہیں، خود انکم ٹیکس قوانین کی سب سے زیادہ خلاف ورزیوں کے مرتکب پائے جائیں؟

اس سوال کے جواب کا ایک حصہ تو خود یہ ڈائریکٹری ہے جسے ایف بی آر نے آگے بڑھایا اور یہ وزیرِ خزانہ کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے اشاعت کی اجازت دی یعنی کم از کم شرم دلانے کے لیے نام شائع کرنے کی مہم۔

علاوہ ازیں، اس سے آگے، انکم ٹیکس ادائیگی کے نظام کو موثر، منصفانہ اور شفاف بنانے، نیز ان کے نفاذ کی خاطر، ادارے کو کڑی ذمہ داریاں سونپنے کی ضرورت ہے۔ ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب یہ حکومت کی ترجیح ہو جو کہ اب تک واضح نہیں۔

آخری اورشاید سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ قومی ٹیکس دھارے اور اس کی گنجائش کے واسطے، انکم ٹیکس چوری کے معنیٰ کیا ہیں۔ ٹیکس دہنگان کی شرح شرمناک حد تک کم ہے۔ گذشتہ مالیاتی برس میں، ٹیکس دہنگان کی شرح جی ڈی پی کے آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد تک گرچکی۔ ساتھ ہی بلواسطہ ٹیکسوں کی نا منصفانہ اور ظالمانہ بھرمار بھی ہے۔

لہٰذا، ایسے میں معاملے کا ایک بھیانک پہلو یہ ہے کہ ایک طرف دولتمند اپنے حصے کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کررہے تو دوسری زیادہ ادائیگی کے لیے غریبوں پر ٹیکسوں کی بھرمار نے ان کی کمر دہری کردی ہے۔

یہ ناگزیر سوال ہے کہ کیا صورتِ حال تبدیل ہوجائے گی؟ پاکستان کے بہت سے مبہم مسائل اکثر سیاسی آمادگی کے باعث حل ہوئے، ایسے میں یہ واقعی سچ ہوسکتا ہے۔

تاریخ اور عالمی تجربات سے تجویز ہوتا ہے کہ خوش قسمتی سے ہی ملک کو ایسی قیادت ملتی ہے جو حقیقی معنوں میں قائدانہ کردار کے لیے کافی ہو لیکن ایسا ایک نسل یا شاید کئی نسلوں میں صرف ایک آدھ بار ہی ہوتا ہے۔ ایسی قیادت تب ملتی ہے جب معاشی ابتری کے باعث پسند کے مطابق انتخاب کی راہیں بند ہوجائیں یا پھر انتخاب کو مشکل تر کردیا جائے۔

تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ان عوامل میں سے کوئی ایک بھی موجود نہیں۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار