نقطہ نظر

افغان عورت پھر نشانہ

نئے قانون کے تحت بہن، بیوی، بیٹی پر تشدد کے ذمہ دار مرد پر مقدمہ نہیں ہوگا۔

افغانستان میں ایک ایسا نیا قانون نافذ کرنے کی تیاریاں ہیں جس کے بعد بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کوتشدد ک نشانہ بنانے والے مردوں کے خلاف مقدمہ قائم کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد، بِل کو قانون بننے کے لیے صرف صدر کرزئی کے دستخط کا انتظار ہے۔

یہ قانون ملوث کیے گئے کسی ملزم کے رشتہ داروں، اُس کے بچوں، ساتھ ہی وکیلِ صفائی حتیٰ کہ ڈاکٹروں سے بھی، بطور گواہ سوالات کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔

جہاں تک خواتین کے خلاف تشدد کا تعلق ہے تو ایسا ملک جہاں صنفی امتیاز کی بنیاد پر تشدد کی معاشرتی روایت خاصی مضبوط ہے، اس قانون کے نفاذ سے مرد کو کھلی چھٹی مل جائے گی۔

افغانستان کے اندر جبری شادیاں اور غیرت کے نام پر عورتوں کا قتل عام بات ہے۔ یہاں گھریلو سطح پر تشدد کے ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جو انتہائی سفاکانہ نوعیت کی بدولت عالمی ذرائع ابلاغ کی سرخیاں بھی بن چکے ہیں۔

اگر اس بِل پر دستخط ہوگئے تو افغان عورت کے مقدر(اور اس کے مستقبل) کے واسطے یہ المیہ ثابت ہوگا۔ طالبان دورِ جبر میں افغان عورت ایک ایسی تصویر تھی جو نیلے برقع میں ملبوس سڑک کنارے بھیک مانگا کرتی تھی۔

روایتی طور پر معاشرے میں کمتر حیثیت کی حامل، بے نام و بے آواز، افغان عورت ایسے سفاک دور کے رحم و کرم پر زندہ رہی تھی، جس نے کام اور تعلیم حاصل کرنے سمیت اسے کسی بھی قسم کے حقوق دینے سے انکار کیا، مرد کے قدموں تلے اپنی زندگی نچھاور کرنے کے سوا، اُسے کوئی حق حاصل نہیں تھا۔

جب افغان جنگ نے طالبان دور کا خاتمہ کیا اور مغرب کی پشت پناہی سے ملک میں نئی حکومت قائم ہوئی، تب متعدد امدادی اداروں کی امداد سے جاری منصوبوں کے ذریعے، افغان عورت کی زندگی میں بہتری آنا شروع ہوئی اور اس پر مواقعوں کے نئے دروازے کھلے۔

اس کے بعد، تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے داخلے کی شرح میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا اور ٹیلی وژن سے لے پولیس تک، تمام شعبہ ہائے زندگی میں افغان عورت نے اعلیٰ مقام حاصل کیا۔

اگرچہ جناب کرزئی نے افغان عورتوں کے حالات میں بہتری کے بہت وعدے کیے تھے تاہم ان پر پیشرفت محدود رہی۔

حالیہ برسوں کے دوران، نیٹو افواج کے انخلا کے تناظر میں بڑھتے خطرات اور افغان پارلیمنٹ کے اندر قدامت پسند عناصر کے غالب پوزیشن حاصل کرنے کے بعد، خواتین کی ترقی و بہتری کے حوالے سے جو پیشرفت کی جاچکی، وہ بھی خطرے میں پڑگئی ہے۔

خواتین کے حقوق کی قیمت پر دقیانوسی طاقتوں کو ٹھنڈا کرنے کے جانے پہچانے حربے اختیار کر کے، دنیاکے ساتھ کھڑے صدر کرزئی اپنے ملک کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار