نقطہ نظر

طویل سیاہ رات

طالبان سے مذاکرات متنازعہ نہیں تو پھر امن کی خاطر بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کیوں نہیں؟

گذشتہ ماہ بلوچستان کے بے امن ضلع خضدار میں اجتماعی قبر کی دریافت نے طویل عرصے سے جاری گھناؤنی کہانی کا ایک اور نیا لیکن بدنما باب کھول دیا ہے۔

سپریم کورٹ کی قائم تحقیقاتی کمیٹی سات مارچ کو اسلام آباد میں سماعت کے موقع پر، اپنی تحقیقات پیش کرے گی۔ اس وقت تک، اس ضمن میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ اجتماعی قبر سے دریافت لاشیں کس کی ہیں، انہیں کس نے اور کس کے حکم پر قتل کیا، سرکاری سطح پر یہ تعین کرنا باقی ہے۔

اجتماعی قبر کی دریافت سے، نہ صرف طویل عرصے سے جاری سیکیورٹی ایجنسیوں کی بلوچ قوم پرستوں کو مارو اور پھینک دو کی مبینہ پالیسی تجویز ہوتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صورتِ حال شاید اس سے کہیں زیادہ گھمبیر اور نقصان دہ ہے، جتنی کہ بعض حلقوں کی طرف سے پہلے خیال کی جارہی تھی۔ اور یہ جاری المیہ بلوچستان کے واسطے بظاہر حل نہ ہونے والا معمہ ہے: فوج کی زیرِ قیادت سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں سےصوبے کی سیکیورٹی پالیسی کس طرح حاصل کی جائے؟

بلوچستان میں قومی سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکومت نے ابتدا میں جو وعدہ کیا، یا شاید وہ صرف امید بھی ہوسکتی ہے، صرف وقت کا زیاں ہی ثابت ہوئی۔ صوبائی اور وفاقی حکومت نے ہمیشہ اس معاملے پر جو زبان اختیار کی وہ عام فہم میں ناقابلِ مواخذہ اور قومی مفاد میں رہی لیکن، آخر کار، الفاظ کو شاذ و نادر ہی عمل کی پشت پناہی حاصل رہی ہو۔

وزیرِ اعلیٰ عبدالمالک بلوچ علیحدگی پسندوں تک پہنچنے کی خواہش کرسکتے ہوں اور ہوسکتا ہے کہ اس کے واسطے انہیں وزیرِ اعظم نواز شریف کی بھی حمایت حاصل ہو لیکن دیگر مسائل کو تو ایک طرف رکھیے، جہاں تک امن عمل کی بات ہے تو کوئی بھی صوبائی حکومت اس وقت تک کچھ حاصل نہیں کرسکتی جب تک وہ خود اس جنگ میں نہ ہو۔

اور، بار بار کے سخت تناؤ کے باوجود، کوئی شبہ نہیں کہ وہاں پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کے صوبائی سربراہ ثناء اللہ زہری سے کہا گیا تھا کہ وہ وزیرِ اعلیٰ بننے کی خواہش قربان کردیں اور نواز شریف نے یہ دیکھا بھی لیکن جناب زہری اور ان کے ساتھی، بہر حال سادہ طور پر بلوچستان حکومت کو فعال کرنے پر تیار نہیں۔

نیشنل پارٹی کو حکومت میں لانے کا وعدہ پرانا تھا تاہم کہا جاتا ہے کہ جناب مالک نے بھی اپنا قائدانہ کردار ادا نہیں کیا۔

اگرچہ لاپتا افراد کے مقدمے میں سپریم کورٹ ڈٹ گئی تھی اور اس نے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بھی ڈالا کہ وہ قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کردے لیکن عدالت کے پاس واقعی ایسا کوئی آلہ نہ تھا کہ وہ خود ریاست کی پالیسی کو تبدیل کراسکتی۔

امن کا قابلِ عمل راستہ ایک ہی ہے اور وہ سب ہی جانتے ہیں، ٹی ٹی پی کے ساتھ جنونی انداز میں مذاکرات کی بات شاید ہی متنازعہ ہونی چاہیے: بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو مذاکرات کے ذریعے قومی دھارے میں واپس لایا جانا چاہیے۔

لیکن اس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے سیاسی سنجیدگی کا اظہار ضروری ہے۔ یہ ایسی بات نہیں کہ جو اچانک کسی وقت رونما ہوجائے۔ مسئلہ طویل عرصے سے موجود تلخیاں ہیں اور اس آگ کے پھیلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار