پاکستان

'میں طالبان کا نمائندہ نہیں'

عسکریت پسندوں کی جانب سے شریعت کی تشریح پر اتفاق نہیں کرتا، عمران خان کا ایک انٹرویو میں بیان۔
|

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس خیال کو مسترد کردیا ہے کہ وہ طالبان کی نمائندگی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ عسکریت پسندوں کی جانب سے شریعت کی تشریح پر اتفاق نہیں کرتے۔

بلومبرگ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ میں طالبان کی نمائندگی نہیں کرتا۔

تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تشدد کے ذریعے اسلامی قوانین نافذ کروانے کے فلسفے کو مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیم کو اس بات کو قبول کرنا ہوگا کہ پاکستان میں اگر کوئی تبدیلی آسکتی ہے تو وہ صرف انتخابات اور آئنی طریقے سے آسکتی ہے۔

عمران خان نے کہا: آپ انہیں (اسلامی قوانین) کو بندوق کی نوک پر مسلط نہیں کرسکتے۔

انٹرویو کے دوران انہوں نے امن مذاکرات کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناکام ہوں گے اور ردعمل میں ہونے والے فوجی آپریشن کی وجہ سے ملک بھر میں پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ طالبان کی جانب سے آئینی حدود کے اندر رہ کر مذاکرات پر آمادگی نے ان عناصر کو بے نقاب کر دیا ہے جودہشت گردی کو شریعت کے نفاذ سے جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف نےکہا کہ طالبان کی جانب سے امریکی جنگ سے پاکستان کی علیحدگی اور ڈرون حملے رکوانے کے مطالبات سامنے آنے سے ہمارے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی امریکا کی جانب سے نام نہاد جنگ کا براہ راست نتیجہ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ امریکی صدر باراک اوباما نے ڈرون حملوں کے مقامی آبادی پر تباہ کن حدتک منفی اثرات کے پیش نظر ان حملوں میں کمی لانے کا فیصلہ کیا ہے جو ڈرون حملوں پر ہمارے دیرینہ موقف کی توثیق کرتا ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے مذاکراتی عمل کیلئے کامیابی کی دعا کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ گفتگو کا عمل آگے بڑھنے سے ملک سے نفرت اور خون خرابے کا خاتمہ ہوگا اور امن لوٹ آئیگا۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ معاملہ پوری طرح کھل کر سامنے آچکا ہے کہ آئین پاکستان شریعت کا ضامن ہے اور وہ ریاست کو ماورائے اسلام کسی قسم کی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔