پاکستان

افتخار چوہدری نے مشرف کے خلاف تعصب سے کام لیا: شریف الدین پیرزادہ

جنرل مشرف کے وکیل نے سپریم کورٹ کے فل بینچ کے سامنے دعویٰ کیا کہ ان کے مؤکل کے خلاف تعصب سے کام لیا گیا تھا۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بدھ 29 جنوری کو یہ واضح کیا کہ اگر کوئی بھی ادارہ یا تنظیم غیر فعال ہوگئی ہے تو یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ اس میں مداخلت کرے۔

”ہر تنظیم اور ادارہ اپنے طریقہ کار کے مطابق اپنا کام کرتا ہے، لیکن اگر وہ غیرفعال ہوجائے تگو یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ اس میں مداخلت کرے۔“ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے یہ بات اس وقت کہی، جب وہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر 2007ء کی ہنگامی حالت کے نفاذ کے اقدام کے خلاف اکتیس جولائی 2009ء کو دائر کی گئی ایک پٹیشن کے جائز ے کے لیے چودہ ججز کے فل کورٹ سماعت کی صدارت کررہے تھے۔

یہ ریمارکس انہوں نے اس وقت دیے جب جنرل مشرف کے وکیل محمد ابراہیم ستی نے دلیل دی کہ ان کے مؤکل کے خلاف غداری کا مقدمہ عدالت کے فیصلے کی ہدایت کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر وہ اس مقدمے کو شروع کرنے میں ناکام رہے تو وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوجائیں گے۔

ابراہیم ستّی نے دلیل کی کہ اس طرح عدالت خود اس مقدمے کی سماعت میں ایک مدعی بن گئی تھی، اور اس کے نام کا غلط استعمال کیا جارہا تھا۔

انہوں نے مقدمات کی ایک بڑی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے نکتہ نظر کو ثابت کیا کہ عدالتوں کو دیگر اداروں کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔

مشرف کے وکیل نے تین نومبر 2007ء کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک سات رکنی عدالتی بینچ کی جانب سے ہنگامی حالت کے نفاذ کے چند لمحوں کے بعد جاری ہونے والے ایمرجنسی روکنے کے آرڈر کی مذمت کی، جس پر جسٹس ناصر الملک نے بھی دستخط کیے تھے۔ انہوں نے پہلی بار واضح کیا کہ ریٹائرڈ جسٹس رانا بھگوان داس نے اسی دن اس دستاویز پر دستخط کیے تھےاور انہیں بھی ججوں کے رہائشی علاقے میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔

جسٹس ثاقب ناصر نے کہا کہ جسٹس بھگوان داس نے انہیں لاہور میں شام کے تقریباً سوا چھ بجے کال کی تھی اور انہیں سات ججز کے جانب سے لیے گئے فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

ایڈوکیٹ ابراہیم ستّی نے دعویٰ کیا کہ جسٹس بھگوان داس نے پانچ نومبر کو اس آرڈر پر دستخط کیے تھے اور اس کے علاوہ ریٹائرڈ جسٹس غلام ربّانی کی موجودگی بھی مشکوک تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اس آرڈر پر شام سات بجے تک دستخط نہیں ہوئے تھے۔

جسٹس ناصر الملک نے جواب دیا کہ ”منیر اے ملک وہاں نہیں تھے۔“

سینیئر وکیل شریف الدین پیرزادہ کے لیے ان کی زندگی کا مشکل وقت تھا، جب ان کی اس دلیل کا عدالت پر کوئی اثر نہیں ہوا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری جنرل مشرف کے خلاف تعصب سے کام لے رہے تھے۔

بہرحال انہوں نے اپنے نکتہ نظر کو ثابت کرنے کے لیے ایک ملاقات کا حوالہ دیا، انہوں نے زور دیا کہ تعصب کے عنصر کی وجہ سے قانونی عمل متاثر ہوا تھا۔

شریف الدین پیرزادہ نے واضح کرنے کی کوشش کی کہ جسٹس چوہدری بینچ کے 13 دیگر ججز کو متاثر کیا تھا، جنہوں نے اکتیس جولائی کے فیصلے کا اعلان کیا تھا، اس وقت وہ ریٹائرڈ جنرل کے مخالف تھے، جنہوں نے اختیارات کے غلط استعمال کا ایک ریفرنس شروع کیا تھا اور انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

لیکن عدالت نے بار بار ان سے کہا کہ وہ تعصب کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت فراہم کریں۔

عدالت نے کہا کہ وکیل ایک رکن کے مبینہ تعصب کے بارے میں بات کررہے ہیں، لیکن وہ ایک ایسے کیس کا حوالہ دینا چاہیٔے جس میں یہی کچھ چودہ ججز کی عدالت کے تمام اراکین کے خلاف ثابت کیا جاسکتا ہو۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے واضح کیا کہ بطور جج ہماری تربیت ہوئی ہے، اور ہم اپنی دیانت داری کے بارے میں سوالات کے عادی رہے ہیں، لیکن ہم مقدمات کو ہمیشہ بلاتعصب نمٹاتے ہیں۔