دیگر جرائم کے برعکس ایک جرم
پچھلے ہفتے ایک پینسٹھ برس کے پاکستانی نژاد برطانوی شہری محمد اصغر کو راولپنڈی کی ایک عدالت کی جانب سے موت کی سزا سنائی گئی، ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کافی عرصے سے دماغی بیماری میں متبلا ہیں۔
ان کو 2010ء میں مختلف افراد کو ایک خط تحریر کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک پیغمبر ہیں۔
توہین رسالت کا ایک الزام، ایک اصطلاح ہے جو کھلے بندوں مختلف جرائم پر لاگو کی جاتی ہے، اور یہ پاکستان پینل کوڈ میں سیکشن 295 کے عنوان ”مذہب سے متعلق جرائم“ کے تحت آتی ہےؕ۔ یہ مختلف سطح پر خطرے سے پُر ہے۔ خود ملزم کے لیے، اس کے خاندان کے لیے، اس کے وکیل کے لیے، یہاں تک کہ اس کے جج کے لیے بھی جو اگر اس کے ضمانت دے یا پھر اس کو بری کردے۔
وکیل فیصل صدیقی کہتے ہیں کہ ”یہ غداری کے مقدمے کے علاوہ شاید واحد جرم ہےکہ اگر کسی پر اس کا الزام لگادیا جائے تو فوری طور پر وہ مطعون ہوجاتا ہے اور ایسا کرنے سے اس کے لیے تشدد کے خطرے کو دعوت مل جاتی ہے۔
”یہی وجہ ہے کہ ایسا کوئی الزام کسی بھی فرد کے خلاف لوگوں کو متحرک کرنا آسان بنادیتا ہے۔“
سال 2012ء کے دوران کم از کم دو کیسز میں ہجوم کو تقریروں کے ذریعہ ازخود انصاف کرنے پر اُبھارا گیا، ایک مثال میں مسجد کے لاؤڈاسپیکرز پر پولیس اسٹیشنوں پر حملے کرنے کے لیے کہا گیاجہاں دو مجرم موجود تھے، ان کو اس وقت تک پیٹا گیا جب تک کہ ان کی جان نہ نکل گئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن (ایچ آر سی پی) کے مطابق 2013ء کے پہلے آٹھ مہینوں کے دوران انیس افراد کے خلاف سیکشن 295 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ ان میں آٹھ مسلمان، چھ احمدی اور دو کرسچین شامل تھے۔
ایچ آر سی پی کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق اس سال مذہب سے متعلق جرائم کے پینتیس مقدمات درج کیے گئے۔ ان کے انتالیس مجرموں میں سے ستائیس مسلمان، سات کرسچین اور پانچ احمدی تھے۔ اس تعداد کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمان اس اصطلاح کا اہم ہدف تھے، غیر مسلموں کی شرح ان اس ملک میں کل آبادی کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان مائنارٹریز الائنس کے چیئرمین اور پیشے کے لحاظ سے وکیل، طاہر نوید چوہدری کہتے ہیں کہ ”جب توہین رسالت کا الزام کسی مسلمان پر عائد کیا جاتا ہے تو وہ انفرادی طور پر متاثر ہوتا ہے، لیکن جب یہ الزام ایک اقلیت کے رکن پر عائد کیا جاتا ہے تو اس کی پوری برادری اس کا شکار ہوجاتی ہے۔“
انہوں نے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کے لیے گوجرہ اور جوزف کالونی کی تباہی کی مثالیں پیش کیںؕ۔
توہین رسالت کا قانون سب سے پہلے ہندوستان میں قبل از تقسیم برطانوی حکومت نے 1860ء میں تشکیل دیا تھا۔ اس میں 1927ء کے دوران توسیع کی گئی، جب اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہورہے تھے۔
یہ اقدام مذہبی حساسیت سے پیدا ہونے والے تشدد کے جرم پر قابو پانے کے لیے اُٹھایا گیا تھا، تاکہ اس طرح کے معاملات سے عدالتوں کے ذریعے غیر متشدد طریقوں کےساتھ نمٹا جاسکے۔
ضیاء الحق کی جانب سے 1980ء اور 84ء میں توہین رسالت کے قوانین میں ترامیم کے بعد سے صورتحال تیزی کے ساتھ تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ ایک قانون دان نے بتایا ”یہ توقع نہیں تھی کہ 80 کی دہائی سے ریاست خود اس قانون کے تحت مقدمات کی پیروی میں خود ایک فریق بن جائے گی۔“
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی ایک رپورٹ کے مطابق 1947ء سے 1987ء کے درمیان چالیس سالوں میں توہین رسالت کے صرف آٹھ کیسز سامنے آئے۔ پھر 1987ء سے اگست 2012ء تک پچیس برسوں کی مدت کے دوران توہین رسالت کے 247 مقدمات درج کرائے جاچکے ہیں، جس میں تقریباً 330 افراد متاثر ہیں ۔ اور یہ تو محض جزوی تصویر ہوسکتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”ایک سرسری اندازے کے مطابق ایسے افراد کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہوسکتی ہے جن پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔“
مختلف عوامل نے ہجوم کی جانب سے ازخود فیصلہ اور سزا دینے کا ماحول پیدا کیا۔ سی آر ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ساٹھ افراد کو توہین رسالت کے الزام میں قتل کردیا گیا، حالانکہ ان کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری تھی یا ان کو بری کیا جارہا تھا۔
اس کے علاوہ کمرۂ عدالت کے اندر بھی شکایت درج کرنے والے کے حمایتیوں کی جانب سے دھمکیاں دی گئیں۔ ایک قانون دان اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ”کوئی بھی کبھی بھی پیسے کے لیے توہین رسالت کا کیس نہیں لیتا۔ وہ صرف انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے لیتا ہے۔“
اس کے علاوہ ججز بھی ان مقدمات میں ضمانت دینے سے گریز کرتے ہیں۔ قانون دان نے کہا ”اس میں ضمانت سے زیادہ بری ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس لیےوہ توہین رسالت کے مجرم کو عبوری ریلیف دینا نہیں چاہتے۔“
اس حقیقت کے باوجود کہ بہت سے کیسز میں ذاتی تنازعات یا پھر ملزم کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی خواہش کے تحت یہ الزام عائد کیا جاتا ہے۔
تشدد کا خطرہ بری ہونے کے بعد بڑھ جاتا ہے، ایسا فرد جس پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا ہو وہ اور اس کا خاندان اس علاقے میں واپس نہیں جاسکتے جہاں وہ پہلے رہتے تھے اور اکثر کو تو اپنی شناخت ہی ختم کرنی پڑتی ہے یا بیرون ملک میں پناہ لینی پڑتی ہے، جیسا کہ ایک نوجوان لڑکی رمشا مسیح کو حال ہی میں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
یہ واضح ہے کہ اس ملک کے اندر ایسے فرد کے لیے کوئی مہلت نہیں جس پر ایک مرتبہ توہین رسالت کا الزام عائد کردیا جائے۔ؕ