دنیا

امریکی بحری جہاز شام کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے مشن پر روانہ

جبکہ جنیوا میں شامی حکومت اور مسلح حزبِ مخالف کے درمیان جاری مذاکرات کا پہلا سیشن کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگیا۔

واشنگٹن: فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی بحریہ کا خصوصی سازوسامان سے لیس ایک بحری جہاز پیر کو اٹلی کے لیے روانہ ہوگیا۔ پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ جہاز شام کے انتہائی خطرناک کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے مشن پر روانہ ہوا ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان کرنل اسٹیوین وارین نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ”ایم وی کیپ رے ورجینیا کے ساحل پر نارفوک کی بندرگاہ سے روانہ ہوا ہے اور تقریباً دو سے تین ہفتوں کے سفر کے بعد اٹلی میں گویا ٹاؤرو کی بندرگاہ پر پہنچے گا۔“

یہ ایک سو ستانوے اعشاریہ پانچ میٹر کے سائز کا کارگو شپ دو بڑے پورٹیبل ہائیڈرو لائسز سسٹم سے لیس ہے، جسے شام میں مہلک کیمیائی ہتھیاروں کو بے اثر بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے جہاز کے کپتان رک جارڈن اور کریو کے 135 اراکین کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ جہاز پر سوار تمام افراد ایک تاریخی مشن پر جارہے ہیں۔امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے جاری کیے خط میں چک ہیگل نے لکھا ہے کہ آپ ایسا کام انجام دینے جارہے ہیں، جسے کرنے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی ہے۔“

یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر کے وسط میں اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کی رپورٹ کے ذریعے اس بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ شام کے شہر غوطہ میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گیے تھے۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہوسکی تھی کہ یہ کیمیائی ہتھیار شامی حکومت کی جانب سے استعمال کیے گئے تھے یا مسلح باغیوں کی جانب سے۔

دوسری جانب پیر ستائیس جنوری کو شام میں قیام امن کے لیے جنیوا میں جاری امن مذاکرات کا پہلا سیشن بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔ شامی حزبِ اختلاف نیشنل کولیشن کے وفد کے مندوبین کا کہنا تھا کہ شام کا سرکاری وفد اہم مسائل کو نظر انداز کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لخدر براہیمی جنیوا امن مذاکرات کی ثالثی کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ تشدد سے بُری طرح متاثر ہونے والے شہر حمس میں محصور لوگوں کو باہر نکالنے کی منصوبہ بندی کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خواتین اور بچوں کو شہر چھوڑنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اپوزیشن وفد کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اب شہر نہیں چھوڑنا چاہیٔے۔ انہیں شہر میں کھانا اور دیگر امداد کی اجازت ملنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ حمس میں مسلح حزبِ اختلاف بھی اب جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لخدر براہیمی یہ چاہتے ہیں کہ شام کے دونوں فریقین اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے خاص کر عبوری حکومت کے معاملے پر بات چیت کو جاری کریں۔ لیکن شام کے سرکاری وفد نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ وہ صدر بشار الاسد کی معزولی کا مطالبہ قبول کرلیں گے۔

شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے لخدر براہیمی نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کی جانب سے امدادی سامان لے جانے والی گاڑیوں کو حمس شہر میں جانے کی اجازت مل جائے گی۔

حمس شہر میں جون 2012ء سے جنگ جاری ہے اور اس خانہ جنگی کی وجہ سے سینکڑوں افراد اب بھی شہر کے مختلف حصوں میں بنیادی انسانی ضروریات سے محرومی کے ساتھ محصور ہیں۔