دنیا

امریکی ایجنسیوں کو ڈرون بیس کے خاتمے پر تشویش

اگر افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی معاہدہ طے نہیں پاتا تو پاکستان اور افغانستان میں ڈرون آپریشنز متاثر ہوسکتا ہے۔

نیویارک: معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے گزشتہ روز پیر کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کو تشویش ہے کہ اگر افغان صدر حامد کرزئی اور امریکا کے درمیان متنازع سیکیورٹی معاہدہ طے نہیں پاتا تو وہ پاکستان اور افغانستان میں ڈرون آپریشنز کے لیے استعمال ہونے والے اڈوں سے محروم ہوجائیں گے۔

اخبار کی رپورٹ میں انتظامیہ، ملٹری اور انٹیلیجنس کے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نئے خدشات ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی براہ راست پڑوسی ملک پاکستان میں امریکا کے طویل مدتی مفادات پر کس طرح اثر پڑتا ہے۔

اگر امریکہ اس معاہدے تک پہنچنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو اوبامہ انتظامیہ نے پہلے ہی متبادل طریقے سے نقصان کو کم کرنے کے لیے ایک انٹیلیجنس، ملٹری اور پالیسی سازوں پر مشتمل ٹیم تیار کر رکھی ہے۔

امریکی حکام کہتے ہیں کہ یہ سیکیورٹی معاہدہ گزشتہ سال مکمل ہوگیا تھا اور افغان صدر حامد کرزئی پر زور دیا گیا تھا کہ اسے جلد سے جلد نافذ کی جائے، لیکن افغان صدر نے اس پر اپنی شرائط عائد کردیں۔ ان شرائط میں افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں اور فورسز کے چھاپوں کی بندش شامل ہیں۔

امریکی صدر نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر یہ سیکیورٹی معاہدہ طے نہیں پاتا تو افغانستان سے مکمل امریکی فورسز انخلاء کرجائیں گی۔

امریکی انتظامیہ کے مطابق اس طرح کی صورتحال میں افغانستان میں سی آئی اے کے ڈرون بیسز کو بند کرنا پڑے گا، کیونکہ ان کی حفاظت کے لیے کوئی سیکیورٹی موجود نہیں ہوگی۔

امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ قریب ترین متبادل بیس پاکستان کے پہاڑی علاقوں سے کافی دور ہیں، سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ وہاں شدت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔

پاکستانی حکومت بھی اپنے علاقوں میں امریکی ڈورن حملوں کی مخالفت کرتی آئی ہے، جس کا کہنا ہے کہ یہ اس کی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق، اس کے علاوہ ان امریکی ایجنسیوں کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ اگر اس خطے میں کسی قسم کا بحران پیدا ہوجائے، مثلاً پاکستان اور انڈیا میں جوہری ہتھیار یا مواد لاپتہ ہوجائے تو قریب ترین متبادل اڈوں سے امریکی افواج نگرانی اور فوری ردعمل سے بھی دور ہوجائے گی۔