پاکستان

بلوچستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارتگری

آج ہی کے دن کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دہشت گردوں کے دھماکوں نے اکیاسی افراد کو ہلاک اور ایک سوستر کو زخمی کردیا تھا۔

آج کوئٹہ میں ہزارہ قبرستان عام دنوں سے کہیں زیادہ لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوجائے گا۔ آج یہاں آنے والے وہ لوگ ہوں گے، جنہوں نے گزشتہ سال دس جنوری کو علمدار روڈ پر ہونے والے دھماکوں میں اپنے پیاروں کو کھو دیا تھا۔

دو بم دھماکوں میں کم از کم اکیاسی افراد ہلاک اور ایک سو ستر لوگ زخمی ہوئے تھے، ان میں اکثریت شیعہ ہزارہ برادری کی تھی جو اس علاقے میں بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

بمشکل ایک مہینے کے بعد کوئٹہ میں سولہ فروری کو ایک اور تباہ کن حملہ کیا گیا، اس مرتبہ نشانہ ہزارہ ٹاؤن تھا، جس کے نتیجے میں اسی پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

بلوچستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں بے ہنگم طور پر ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس لیے کہ دیگر شیعہ کے مقابلے میں انہیں ان کی مخصوص شکل و صورت کی وجہ سے آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر ایران کی زیارتوں کے لیے سفر کرنے والے زائرین کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اسی طرح کا حملہ کوئٹہ سے کچھ دوری پر پچھلے ہفتے کیا گیا تھا، یہ ڈسٹرکٹ صوبے میں فرقہ وارانہ حملوں سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن (پی آئی پی ایس) کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تینتس فرقہ وارانہ حملے بلوچستان میں کیے گئے، جن میں سے بائیس کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں ہوئے، اور ان میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق ہزارہ اور دیگر شیعہ برادری سے تھا۔

صوبے کے اس حصے میں زیادہ تر فرقہ وارانہ حملوں کے بارے میں لشکرِ جھنگوی اور اس سے منسلک گروہوں جیسے کہ جیش الاسلام نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی جانب سے کیے گئے تھے۔

اگرچہ سب جانتے ہیں کہ ان گروہوں کے ٹھکانے کوئٹہ کے اندر، مستونگ ڈسٹرکٹ سمیت سپلنجی اور کابو کے حصوں اور اس کے بعد مچھ اور قلات میں موجود ہیں، لیکن پولیس کے مطابق ان پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں ہے۔

بلوچستان کے ایک سینیئر پولیس اہلکار نے بتایا ”ان کے ٹھکانے کچا روڈ اور بڑے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں، وہ ہماری گاڑیوں سے اُڑتی دھول کو میلوں دور سے دیکھ لیتے ہیں، اور انہیں فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ جب ہمیں صرف ایک مربتہ ہی کوئی کامیابی مل سکی تھی، جب ہم بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں اور ہیلی کاپٹر کی مدد کے ساتھ وہاں گئے تھے۔“

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کو دیکھا جائے تو یہاں شہر میں کچی آبادیاں تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی جارہی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد اپنے ٹھکانوں کو مسلسل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ان سے ہمدری رکھنے والے عناصر بھی ہوسکتے ہیں۔ اب تک دو سابق پولیس اہلکار لشکرجھنگوی کے ساتھ سازباز کرنے پرمقدمے کا سامنا کررہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ واریہ سیکیورٹی سیٹ اپ میں بھی اپنی جگہ بنا چکا ہے۔

ان سنگین اعدادوشمار کے باوجود بھی پچھلے چند مہینوں کچھ بہتری پیدا ہوئی ہے۔

مسلم لیگ ق کی رکن اسمبلی رقیہ ہاشمی جو ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ”بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ حملوں رُک گئے ہیں، جس طرح پہلے کیے جارہے تھے، اور ٹاگٹ کلنگ کی رفتار میں بھی کمی آئی ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے فرقہ پرست گروہوں کے خلاف خاص طور پر 2013ء کی ابتداء میں دو بڑے حملوں کے بعد کچھ کارروائی کی تھی۔

بلوچستان پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تقریباً چھ ماہ پہلے لشکرِ جھنگوی کے دہشت گردوں کے ساتھ دو اہم مقابلے ہوئے تھے، جن میں سے ایک خروٹ آباد اور دوسرا ایسٹرن بائی پاس کے نزدیک ہوا تھا، ان میں مختلف اوسط درجے سے لے کر اعلیٰ سطح کے دہشت گرد (جن میں ایک سابق کانسٹبل بھی شامل تھا)مارے گئے تھے، جس سے ان تنظیموں کو بڑا نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔

خاص طور پر ان راستوں کی سیکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے جو ہزارہ برادری کی بڑی آبادی کو جاتے ہیں، تاہم اس طرح کے اقدامات کافی نہیں ہیں اور ان محدود اثر ہی ظاہر ہوتا ہے۔

غیر محفوظ علاقے اب بھی حملوں کی زد میں ہیں، جس طرح پولیس کے محافظوں کی سیکیورٹی کے باوجود شیعہ زائرین کے ایک بس قافلے پر حال ہی میں حملہ کیا گیا تھا۔

بلوچستان میں فرقہ پرست گروہ ملک کے دیگر حصوں کے دہشت گردوں کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کو مضبوط بنا رہے ہیں، جس سے انہیں پناہ حاصل کرنے اور خود کو دوبارہ منظم کرنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر لشکرِ جھنگوی بلوچستان ونگ کے رہنما عثمان کرد، جو 2008ء کے دوران جیل سے فرار ہوگئے تھے، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کراچی میں ہیں۔

انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن کی رپورٹ کے مطابق ”پچھلے تین سالوں کے دوران اس گروہ نے مختلف دھڑوں کو کراچی اور کوئٹہ میں فعال کیا گیا ہے۔“

دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی ضرورت ہے، لیکن انتظامیہ دہشت گردوں کے پراکسی استعمال اس طرح کی سوچ سے دور رکھتی ہے۔

بلوچستان کے معاملے میں لشکرجھنگوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے حکومت کے حمایتی دہشت گرد گروپ بلوچ مسلح دفاع تنظیم سے روابط ہیں، یہ ان ڈیتھ اسکواڈ میں سے ایک ہے جس پر بلوچ قوم پرستوں کے اغوا اور ہلاکتوں کے الزام عائد کیے جاتے ہیں۔

سیکیورٹی تجزیہ نگار محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ ”ریاستی سطح پر وضاحت کی ضرورت ہے، ابہام سے دہشت گردوں کے لیے گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔ جب تک ریاست کچھ گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی، اس وقت تک دوسروں کے لیے جگہ بنتی رہے گی۔“

بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ ریاست نے جو دو رُخی پالیسی اپنا رکھی ہے، اس کی وجہ سے اس نہ ختم ہونے والے عفریت کے لیے ہموار زمین میسر آرہی ہے۔