فرقہ وارانہ گرہ
گذشتہ چند دہائیوں، بالخصوص جنرل ضیاء الحق کے بد بخت دورِ حکومت کے دوران تششد کو ملنے والے فرقہ وارایت کے زہریلے ایندھن نے، پاکستانی معاشرے پر تباہ کُن اثرات مرتب کیے ہیں۔ بہت سارا لہو بہ چکا جبکہ تعصب کا رنگ بہت سارے 'اعتدال پسند' پاکستانیوں کی سوچ پر بھی چڑھ چکا، جو فرقہ واریت کو 'دیگر' قرار دے کر شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اگرچہ فرقہ واریت کی سطح میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے لیکن جو شے غائب ہے، وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ریاست کے اقدامات، خاص طور ایسے میں کہ جب فرقہ واریت پر قائم گروہ اور مذہبی منافرت پر مبنی لٹریچر تیزی سے پھیلتا جارہا ہو۔
نظر یہ آتا ہے کہ ریاست فرقہ واریت کے مسئلے کو ختم کرنے کے بجائے، اس پر قابو پانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ تمام مکاتبِ فکر کے زیادہ تر علما فرقہ واریت کی مذمت پر یک زباں ہو کر، تقریباً ایک ہی طرح کے رویے کا اظہار کرتے ہیں لیکن دوسری طرف، اس کا مقابلہ کرنے کے واسطے ان کی جانب سے کچھ خاص کوششیں نظر نہیں آتی ہیں۔
اگر تمام شراکت دار اپنا کردار ادا کریں تو اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی خاطر اب بھی وقت کی مہلت ہے۔ اس تناظر میں، اتوارکو اسلام آباد میں منعقدہ شیعہ سُنی اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کا منعقدہ کنونشن ایک مثبت پیشرفت ہے۔
اس سے یہ بھی عکاسی ہوتی ہے کہ اکثریت پُرامن رہتے ہوئے، بقائے باہمی پر مبنی مفاہمت کی خواہاں ہے لیکن یہ مٹھی بھر شرانگیز ہیں جو بے چینی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ اب ان کی ایک مشترکہ ریلی، اگرچہ آگے کی طرف ایک قدم ہے، لیکن سنگین صورت اختیار کرنے والا یہ مسئلہ اس طرح حل ہونے والا نہیں۔
سن دو ہزار تیرہ کے دوران فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھنے والوں پر مشتمل یہ اعداد و شمار ملاحظہ کیجیے، جنہیں اتوار کو ایک تھنک ٹینک نے جاری کیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے مطابق گذشتہ برس، ملک بھر میں فرقہ وارانہ حملوں کے دوران چھ سو اٹھاون افراد ہلاک جبکہ ایک ہزار، ایک سو پچانوے افراد زخمی ہوئے۔
سن دو ہزارچودہ کے دوران جسموں کی گنتی کچھ اس انداز سے نہ ہو، یہ یقینی بنانے کی خاطر حکومت اور علما، دونوں کو چند ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اول، مسلح فرقہ وارانہ تشدد، دہشتگردی یا ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ذمہ داروں کا تعلق خواہ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو، اس سے لاتعلقی اختیار کرکے، ان پر مقدمہ چلانا چاہیے۔
سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ایسے گروہوں کی سرگرمیاں اور جو انہیں تحفظ یا سیاست کا پردہ فراہم کرتے ہیں، ان کے بارے میں واضح علم ہے۔ مثال کےطور پر، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس لشکرِ جھنگوی نے نو خودکش حملے کیے۔ وہ جو ان کے ساتھی ہیں یامدد کرتے ہیں، ان سب کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
دوم، ریاست کو علما کے تعاون سے مساجد اوردیگر عبادت گاہوں میں، بالخصوص ایسے مقامات پر جہاں مائیکرو فون کے ذریعے مذہبی منافرت پھیلائی جاتی ہو، لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت ہے۔ تمام مذہبی گروہوں، بشمول وہ بعض بھی جو کھلے عام فرقہ واریت پر قائم ہیں، ان تمام کو حلف لینا چاہیے کہ وہ معاشرے میں رواداری چاہتے ہیں۔
ان کا عزم صرف ایک بات سے تب ہی ثابت ہوجائے گا جب یہ مساجد کے مائیکرو فون سے نفرت پھیلانے والے شرانگیزوں کے خلاف، ریاست کی مدد کریں گے۔ بہرحال، اپنی جگہ یہ سوال موجود ہے کہ چاہے ریاست ہو یا علما، کیا یہ فرقہ وارانہ تشدد پر قابو پانے کو تیار ہیں۔
جب تک اس ضمن میں ہم ٹھوس ثبوت نہیں دیکھتے، تب تک مشترکہ ریلیاں یا ضابطہ اخلاق، جیسا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خاطر مولانا طاہر اشرفی نے بھی دیا، اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی خاص ثمر آور ثابت نہ ہوں گے۔