پاکستان

ڈرون حملہ مذاکرات کی ٹرین کو پٹری سے اتار دیتا ہے: وزیراعظم

وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ دہشت گردی سے مذاکرات کے ذریعے نمٹا جائے گا، چاہے کوئی پسند کرے یا نہیں کرے۔

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو بتایا کہ وہ قومی سلامتی کونسل کو مضبوط بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور متعلقہ فیصلوں پر اختیارات کے ساتھ ایک ادارہ جاتی فورم بنانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں اسٹیک ہولڈرز مختلف طرزوں میں بات کرتے تھے، لیکن اب اس فورم پر کوئی بھی آسکتا ہے اور بات کرسکتا ہے، اور اب اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔

کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت امن کی بحالی کی کوششوں کے ضمن میں آل پارٹیز کانفرنس کی جانب سے کیے گئے فیصلوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”مذاکرات کے ذریعے امن کا حصول بہترین آپشن ہے، لیکن جب ہم مذاکرات کا آغاز کرنا چاہتے ہیں، ڈرون حملہ سب کچھ پٹری سے اُتار دیتا ہے۔“

وزیراعظم نے کہا کہ یہ حکومت کا طے شدہ فیصلہ تھا کہ دہشت گردی سے مذاکرات کے ذریعے نمٹا جائے، چاہے اس کو کچھ لوگ پسند کریں یا نہ کریں، اور اسی لیے انہوں نے امریکی صدر بارک اوبامہ پر واضح کردیا تھا کہ ڈرون حملے قابل قبول نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اور ملا برادر کے ذریعے طالبان کو ؕمذاکرات پر قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس کے علاوہ اطلاعات کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی کی امن کونسل کے سربراہ صدر الدین ربّانی نے طالبان کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا تھا، جس سے سردمہری کا خاتمہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”ہم نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کو چیلنج دینے کے لیے ایک کثیرالجہتی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرزمین یا سرحد کو ایک دوسرے کے خلاف سرگرمیوں کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔“

نواز شریف نے بتایا کہ انہوں نے جاپانی وزیراعظم سے بات چیت کے دوران کراچی سرکلر ریلوے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالرز کے قرضے کو بحال کرنے کی درخواست کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ”وہ اس پر رضامند ہوگئے تھے، لیکن ہمارے اصلاحاتی پروگرام کو آگے بڑھانے کے حوالے سے آئی ایم ایف کی جانب سے کم ازکم دو جائزوں کا انتظار کرنا چاہتے ہیں۔“ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی یہ پختہ خواہش ہے کہ کراچی کو ایک جدید ٹرانسپورٹ سسٹم دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور جاپان جیسے بڑے طاقتور ممالک سمیت پوری دنیا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ پروگرامز اور مذاکرات چاہتی ہے، اس لیے کہ سرمایہ کار اور کثیر جہتی ایجنسیاں اس کا جائزہ لیتےہیں، لیکن پاکستان میں اس کو ایک منفی چیز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ؕ

وزیراعظم نے کہا کہ ”غیرحقیقی بنیادوں پر مبنی تنقید کا یہ کلچر اب ختم ہوجانا چاہئیے۔“