'مشرف کل پیش نہ ہوئے تو گرفتاری کا حکم دیں گے'
اسلام آباد: پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف کارروائی کے لیے قائم خصوصی عدالت میں آج بدھ کو ہونے والی سماعت کو کل یعنی جمعرات کی صبح تک ملتوی کرتے ہوئے سابق صدر کو ہر صورت میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے آج کی سماعت میں حاضری سے عارضی استثنیٰ منظور کرتے ہوئے کہا کہ اگر پرویز مشرف کل بھی پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف گرفتاری کا حکم جاری کریں گے۔
اس سے قبل بدھ کی صبح جب سماعت شروع ہوئی تو سیکیورٹی خدشات کے باعث پرویز مشرف کی طرف سے حاضری سے استثٰنی اور ٹرائل کی سماعت پانچ ہفتوں تک ملتوی کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007ء کا فیصلہ بطور آرمی چیف لیا تھا چنانچہ ان کے خلاف مقدمہ صرف فوجی عدالت میں ہی چل سکتا ہے۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر کے خلاف سماعت بدھ کی صبح شروع کی، لیکن اس مرتبہ بھی سیکیورٹی خدشات کی بنا پر مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔
یہ خصوصی عدالت اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع نیشنل لائبریری میں قائم کی گئی ہے۔
سابق صدر کے وکلاء نے سیکیورٹی خدشات کی بناء پر انہیں پیشی سے استثنٰی دینے اور سماعت پانچ ہفتے کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی۔
اس موقع پر آئی جی اسلام آباد نے سیکیورٹی کے حوالے سے عدالت کو بتایا کہ مشرف کی رہائشی فارم ہاؤس سے عدالت تک ایک ہزار اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
سماعت کے دروان مشرف کے وکلاء کے درمیان دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
مشرف کے ایک وکیل احمد رضا قصوری نے اپنے دلائل میں کہا کہ آج بھی سابق صدر کی رہائش گاہ چک شہزاد کے باہر سے دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا جس کی وجہ سے وہ پیش نہ ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پرویز مشرف کو کچھ بھی ہوا تو ذمہ دار عدالت ہوگی، جس پر عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو دھمکیاں نہ دیں ہم نے پوائنٹ نوٹ کرلیا ہے۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ یہ عدالت نہیں بلکہ 'شیکسپئیر کا تھیٹر' لگتا ہے۔
اس دوران انہوں نے حکومتی وکیل اکرم شیخ پر بھی اعتراض کیا کہ وہ نواز شریف کے 'حواری' ہیں۔
اکرم شیخ نے جواب دیا وہ چاہیں تو احمد رضا قصوری سے سو گنا زیادہ اونچی آواز میں بات کرسکتے ہیں۔ عدالت انہیں متعصب قرار دے گی تو وہ چلے جائیں گے۔
سماعت کے موقع پر مشرف کے ایک اور وکیل انور منصور نے عدالتی انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ عدالت کس طرح کارروائی کررہی ہے۔
خیال رہے کہ اس قبل 24 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے سیکیورٹی خدشدت کی وجہ سے ایک پیشی سے استثنیٰ کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اگلی سماعت میں پرویز مشرف کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
گزشتہ سماعت کے موقع پر عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ یکم جنوری کو پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی کے بعد ان پر فردِ جرم عائد کی جائے۔پرویز مشرف کی عدالت میں متوقع پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور نیشنل لائبریری کے اطراف میں راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا۔
ڈان اخبار میں منور عظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً دو سو پولیس اہلکاروں کے ساتھ کمانڈرز اور رینجرز کے بھی اہلکار شامل تھے، جو سابق صدر مشرف کے لیے کیے گئے سیکیورٹی انتظامات کا حصہ ہیں۔
ایک پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ یہ انتظامات پرویز مشرف کو درپیش سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے کیے گئے۔
خیال رہے کہ گزشتہ مہینے دو مرتبہ ان کے فارم ہاؤس کے نزدیک سے دھماکہ خیز مواد کے آلات برآمد ہوئے تھے۔
اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کے نزدیک گاڑی سے 45 کلو گرام کا دھماکہ خیز مواد اس وقت برآمد ہوا تھا جب وہ ایک انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے واپس آرہے تھے۔
غداری کیس پر فوج کی حمایت:
اس قبل حالیہ اتوار کو سابق صدر پرویز مشرف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنے اوپر عائد غداری کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔
مشرف کا کہنا تھا کہ ان پر غداری کے الزامات اور مقدمہ چلانے سے فوج ناخوش ہے اور جو فیڈ بیک مجھے موصول ہوا ہے، اس حوالے سے مجھے اس بات کوئی شک نہیں ہے کہ پوری فوج مکمل طور پر اس معاملے میں میرے ساتھ ہے۔
واضح رہے کہ نومبر 2007ء میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنے سے متعلق مشرف کے اقدام پر غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے، اور اگر انہیں اس کا مرتکب پایا گیا تو انہیں سزائے موت یا عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
جنرل مشرف مئی کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئے تھے، لیکن ان کی یہ واپسی ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔انہیں ان انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، اور ان پر اپنے عہدِ حکمرانی کے دوران جس کا 2008ء میں خاتمہ ہوگیا تھا، سنگین نوعیت کے مجرمانہ الزامات کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا۔
ان میں 2007ء کو ہوئے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام کے ساتھ ساتھ نواب اکبر بگٹی کی موت، لال مسجد میں موجود دہشت گردوں کے خلاف ایک مہلک کارروائی اور ججز کی نظربندی کے الزامات شامل ہیں۔
انہوں ان تمام مقدمات میں ضمانت دی جاچکی ہے، اور اصولی طور پر وہ ایک آزاد شخص ہیں، لیکن طالبان کی جانب سے انہیں دی جانے والی قتل کی دھمکیوں کی وجہ سے وہ سخت حفاظت میں رہتے ہیں۔