پاکستان

بری ہونے والاساڑھے چار سال سے رہائی کا منتظر

پی سی او ججز نے رہائی کے فیصلے کو تحریری صورت میں جاری نہیں کیا چنانچہ بشیر بھٹی گیارہ سال سے جیل میں قید ہے۔

لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے ایک شخص کی رہائی کا حکم ساڑھے چار سال قبل دیا تھا، وہ تاحال اپنی رہائی کا منتظر ہے، اس لیے کہ اس کے کیس کی سماعت پی سی او ججز نے کی تھی، اور یہ فیصلہ تحریری صورت میں جاری کرنے سے پہلے ہی انہیں معزول کردیا گیا تھا۔

بشیر بھٹی پر قتل کا الزام تھا، انہیں لاہور ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے تیس جولائی 2009ء کو اس الزام سے بری کردیا تھا۔ اس دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ کھلی عدالت میں سنایا تھا۔ تاہم وہ بشیر بھٹی کو تحریری صورت میں ان کی رہائی کو فیصلہ نہیں دے سکے تھے۔

اس بینچ کے ایک رکن جسٹس میاں نجم الزمان نے جنرل پرویز مشرف کے تین نومبر 2007ء کے عبوری آئینی حکم کے تحت حلف لیا تھا۔ دوسرے رکن جسٹس رانا زاہد محمود تھے، جن کی تقرری ’غیر آئینی‘ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے کی تھی۔ اس بینچ کے دونوں اراکین نے جس دن بشیر بھٹی کی رہائی کا حکم دیا تھا، اس کے اگلے ہی دن انہیں فارغ کردیا گیا۔ اکتیس جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ کی چودہ رکنی بینچ نے اس فیصلے کو منظور کرلیا تھا۔

راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے ایک قتل کے الزام میں 2004ء کے دوران بشیر بھٹی کو سزائے موت سنائی تھی، جبکہ وہ 2002ء سے جیل میں قید تھے۔ وہ ان چار افراد میں شامل تھے، جن پر تین افراد کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام تھا۔ بشیر بھٹی ان میں سے واحد تھے، جنہیں بری کردیا گیا تھا۔ جسٹس نجم زمان اور جسٹس رانا زاہد پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے بشیر بھٹی کو سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی اجازت دی اور انہیں میرٹ پر بری کردیا۔ تاہم نہ تو ان ججز نے ایک مختصر حکم جاری کیا اور نہ ہی بطور جج اپنا چارج چھوڑنے سے پہلے تفصیلی فیصلہ پیش کیا۔ بری کیا جانے والا شخص اس کے بعد سے جیل میں سڑ رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے اکتیس جولائی 2009ء کے حکم میں پی سی او ججز کی جانب سے لیے گئے فیصلے کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس حکم میں کہا گیا تھاکہ ”سپریم کورٹ یا کسی بھی ہائی کورٹس کے ان ججوں کی جانب سے دیے گئے فیصلے یا حکم یا کسی بھی حکم کی منظوری کو تحفظ حاصل ہوگا، جن کی تقرریوں کو باطل قرار دے دیا گیا ہو۔یہی اصول ملک اسد علی کے مقدمے (پی ایل ڈی 1998ء ایس سی 161) میں اختیار کیا گیا تھا۔“

اس کے علاوہ ایک جج جنہیں دیگر تمام پی سی او ججز کی طرح معطل کردیا گیا تھا، کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت کے چیف جسٹس سید زاہد حسین نے تمام ان ججز کو جنہیں سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کردیا گیا تھا، یہ ہدایت کی تھی کہ وہ اپنا چارج چھوڑنے سے پہلے اپنے زیرالتوا کاموں کو مکمل کریں، تاکہ مقدمات کے عام فریقین کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اس کے باوجود کہ ان کو بری کیے جانے کا حکم کبھی حقیقی صورت اختیار نہیں ہوگا، بشیر بھٹی اور ان کا خاندان انتظار کررہا ہے۔ درحقیقت بظاہر کچھ بھی ڈرافٹ کی صورت تیار نہیں کیا گیا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ وہ ججز جنہوں نے ان کو بری کیا تھا، اپنا چارج چھوڑتے وقت اپنے کام مکمل کرکے نہیں گئے تھے۔

اس مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ایک اپیل اب زیرِالتواء ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے مختلف بینچوں کے سامنے پڑی ہوئی ہے۔ بشیر بھٹی کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ”تیس جولائی کے حکم کے حوالے سے اس اپیل کی سماعت اب نئے سرے سے ہوگی، بدقسمتی سے اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں رہی۔“

ایڈوکیٹ اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں کہ وہ ججز جنہوں نے کھلی عدالت میں اپیل کی اجازت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، عدالتی عملے کو بھی مخاطب کیا تھا کہ وہ مقدمات کی روزانہ کی کارروائی کو درج کرلے۔ بشیر بھٹی جو پچھلے گیارہ سال سے جیل میں قید ہیں، ان کو تاحال کوئی توقف نہیں مل سکا ہے۔

ایک ’پی سی او جج‘ احسان بھون جنہیں اکتیس جولائی کو معزول کردیا گیا تھا، کا کہنا ہے کہ کھلی عدالت میں سنائے گئے اپنے فیصلے کو ڈرافٹ کرنے یہی ججز ذمہ دار تھے، چاہے وہ اگلے روز اس بینچ میں شامل نہیں تھے۔