نقطہ نظر

یکساں نصابِ تعلیم

قومی نصاب کمیشن کے لیے وفاقی تجویز، صوبائی اتفاقِ رائے کے بغیر ناقابلِ عمل رہے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری سے متعدد حکومتی اورانتظامی اختیارات کی، مرکز سے صوبوں کو منتقلی ایک اچھا قدم تھا، جس نے طویل عرصے سے کیے جانے والے مطالبے کو پورا کیا۔ اب صوبوں کو اپنے تحفظات کے معاملات کنٹرول کرنے کے لیے ممکنہ حد تک براہ راست کنٹرول حاصل ہونا چاہیے۔

تاہم یہاں ایسے بعض پہلو بھی ہیں کہ جہاں مکمل صوبائی خود اختیاری نے تحفظات پیدا کیے ہیں، جیسا کہ، مثال کے طور پر، ڈرگ ریگولیشن اور صحتِ عامّہ کے شعبے کے بعض حصے۔ بدھ کو ایک اور مشکل شعبے نے بھی ان کے پیچھے سے اپنا سر ابھارا ہے: نصابِ تعلیم کی تیاری۔

تعلیم کے وزیرِ مملکت نے صوبائی وزراء اعلیٰ کو لکھے گئے ایک خط میں، نصاب کی تیاری کے ذمہ دار صوبائی محکمہ تعلیم کے اداروں کے مابین کمزور رابطوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'یہ نصابِ تعلیم کے معیار اور مواد میں تضادات پیدا کررہے ہیں۔'

اب حکومت کو قومی نصاب کمیشن (نیشنل کری کیولم کمیشن) بنانے کی تجویز دی گئی ہے، جو تمام صوبوں کی سطح پر، اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کے لیے یکساں نصابِ تعلیم کو یقینی بنائے گا۔

مجوزہ کمیشن میں تمام صوبوں اور وفاق کے نمائندے شامل ہوں گے اور اس کی سربراہی حقیقت پسندی کی بنیاد پر سونپی جائے گی۔ اگرچہ اس پر صوبائی خود مختاری کے حق میں مضبوط اور قابلِ جواز دلیل دی جاسکتی ہے لیکن کم از کم نظریاتی طور پر حکومتی تجویز منطقی لحاظ سے آگے کی جانب ایک قدم ہے۔

یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ طالب علموں کی اہلیت اور فکر کو مشکلات سے دوچار کردینے والا موجودہ نصابِ تعلیم ، مختلف اوقات میں مختلف حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے نظریات یا دیگر کے زیرِ اثر، مرتب و شامل کیے جانے والے غیر اہم مواد کا ایک ملغوبہ ہے۔

تاریخی حقائق کو نہ تو اپنی پسند کے مطابق لکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان پر تعصب برت سکتے ہیں، لہٰذا اس تناظر میں شاید ضرورت ہے کہ مضامین، جیسا کہ تاریخ اور مذہب، کو یکساں طور پر معیاری انداز میں ترتیب دیا جائے۔

اور پھرجہاں تک دیگر مضامین کی بات ہے تو یکساں نصابِ تعلیم کی دلیل کس حد تک کار گر ہے؟ مثال کے طور پر ملک کےدور دراز اورپسماندہ علاقوں میں کہ جہاں (سرکاری) اسکولوں کے اساتذہ زیادہ تر غیر حاضر رہتے ہوں، وہاں کے طالب علم اپنے برابر کے شہری طالب علموں کے معیار کے ہمسری نہیں کرسکتے۔

لہٰذا، بہتر بنیادوں پر مضامین کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے مقابلے میں کیا ایسے طالب علم، امتحانات میں اُن کے برابر نمبر حاصل کرنے کے قابل ہوپائیں گے؟

نصاب تعلیم میں موجود خامیوں کا تقضا ہے تفصیل سے مباحثہ۔ یکساں نصابِ تعلیم میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور ان پر قابو پانے کی راہیں تلاش کرنے میں تمام صوبوں کا نہایت اہم کردار ہے۔

صوبائی اتفاقِ رائے اور ان کی آراء شامل کیے بغیر، وفاق کی یہ تجویز ناقابلِ عمل رہے گی۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار