پاکستان

دہشت گردوں کا جو یار ہے، غدار ہے، غدار ہے: بلاول بھٹو

بلاول بھٹو نے بے نظیر بھٹو کی برسی کے سالانہ اجتماع پرکہا کہ اگر طالبان ہتھیار نہیں ڈالتے تو ہم ان کے خلاف جہاد کریں گے۔
|

لاڑکانہ: سابق صدر آصف علی زرداری نے طالبانائزیشن کو غربت سے منسلک کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ حکومت اقتصادی استحکام کے لیے کام کرے، جبکہ پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلٰی بلاول بھٹو زرداری نے دہشت گردوں کے خلاف ’جہاد‘ کو جاری رہنا چاہئیے، جب تک کہ وہ ہتھیار نہیں ڈال دیتے۔

بلاول جو کل بروز جمعہ ستائیس دسمبر کو گڑھی خدابخش بھٹو میں بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک بڑے اجتماع سے خطاب کررہے تھے،انہوں نے اس موقع پر یہ اعلان بھی کیا کہ ان کی بہنیں بختاور اور آصفہ بھی عملی سیاست میں شامل ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ”اگر طالبان ہتھیار نہیں ڈالتے اور آئین کو تسلیم نہیں کرتے، تو ہم ان کے خلاف جہاد کریں گے۔“

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد ان کے دشمن تھے اور حیوانوں کو ایک شیر نے کھلایا پلایا ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے انتخابی نشان کا حوالہ دیا کہ وہ ایک اور ذوالفقار علی بھٹو بننے کی کوشش کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ’شیر‘ ثابت کردے کہ وہ بدل چکا ہے اور پنجاب میں دہشت گردوں کو پناہ دینی بند کردی ہے تو وہ وزیراعظم کی حمایت کریں گے۔دوسری صورت میں انہوں نے نعرہ لگایا کہ ”جو دہشت گردوں کا یار ہے، غدار ہے، غدار ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ”اگر وہ اپنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیتے ہیں اور ملک کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے تو ہم ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے اسلام کے نام پر ان کی والدہ کو قتل کیا،فوج پر اور ملالئے یوسف زئی پر حملے کیے۔ لیکن نہ تو وہ مسلمان ہیں، نہ ہی انسان۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا ہی دہشت گردی کا سامنا کررہی ہے اور اس لعنت کے خاتمے میں کچھ وقت لگے گا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دہشت گردی ڈرون حملوں کی پیدوار نہیں تھی۔

انہوں نے اپنے والد آصف علی زرداری کی تعریف کی کہ انہوں نے اس وقت ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگایا جب ملک انتشار کے انتہائی کنارے پر پہنچ چکا تھا، اور انہوں نے اس کام کو انجام دیا جسے اسٹیبلشمنٹ نے ناممکن سمجھ لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس سال انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو عوام سے رابطے کی سہولت سے محروم رکھا گیا، جبکہ دیگر کو طالبان کی حمایت حاصل تھی۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی، لیکن ”جمہوریت کی بالادستی کے لیے ہم نے اس کو قبول کیا،ہم تعمیری سیاست کرتے ہیں، تخریبی نہیں۔“

انہوں نے کہا کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ پیپلزپارٹی کے خلاف متحد تھی اور کچھ عناصر نے ایک سیاسی صدر کو خاموش کردیا تھا اور ان کے ہاتھ باندھ دیے تھے۔ ہم ان سب کو جانتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کی سونامی پنجاب کی سرحد پر ہے۔ؕ

انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کو یقین دلایا کہ پیپلزپارٹی نہ تو جمہوریت کی ٹرین کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کرے گی، اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دے گی۔

پیپلزپارٹی کے جیالوں نے پچھلی حکومت کے وزیروں کے خلاف شکایت کی کہ انہیں ان سے وہ دیکھ بھال اور محبت حاصل نہیں ہوئی، جس طرح انہیں بے نظیر بھٹو سے ملا کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پارٹی کے کچھ کارکنوں میں تلخی موجود ہے، لیکن بھٹو کے مداحوں کے لیے بے نظیر کے بیٹے کو چھوڑ دینا ممکن نہیں۔ یہ شکایتیں بھلا دینے کا وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی تعمیر و ترقی کے لیے کام کررہی ہے اور ”ہم ملک کے لیے اپنی جانیں دے سکتے ہیں۔“

بلاول نے کہا کہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور ان کی والدہ بے نظیر کا خون لیاقت باغ میں بہایا گیا، اس لیے کہ ان کا حقیقی اثاثہ اس ملک کے عوام تھے۔

انہوں نے ہجوم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ : ”اب یہ آپ کے لیے موقع ہے کہ میری دیکھ بھال کریں، جس طرح آپ نے بے نظیر بھٹو کی دیکھ بھال کی تھی۔ وہ لوگ جنہیں آمریت اور سیاسی یتیموں کی جانب سے اوپر لایا گیا ہے، ذاتی مفادات کی سیاست کررہے ہیں۔ لیکن ہم نے اپنا خون پیش کیا ہے۔ میں نے بے نظیر بھٹو کو اپنے بھائیوں لاشیں وصول کرتے دیکھا ۔ میں گواہ ہوں کے میری والدہ اپنے بچوں کو زرداری سے ملوانے جیل لے کر جایا کرتی تھیں۔“

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے دوست غدار ہیں، جبکہ ”ہماری منزل شہادت ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ”یہ بے نظیر بھٹو کا پاکستان ہے، نہ کہ جنگلی جانوروں کا۔“

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا حوصلہ برقرار ہے، اور 2018ء سے پہلے جو اگلے انتخابات کا سال ہے، ”میں پارٹی کی تنظیم نو کروں گا، اس لیے کہ نظریہ اور کارکردگی ہی کامیابی کی کلید ہوگی۔“

انہوں نے کہا کہ حکمروانوں نے کشکول توڑنے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے، لیکن اب وہ کشکول پھیلا چکے ہیں۔

ایران پائپ لائن: سابق صدر زرداری نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعظم نواز شریف تنہا نہ تو پاکستان ایران گیس پائپ لائن مکمل کرسکتے ہیں، نہ ہی ترکی کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام مسائل کو پانچ سالوں میں حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

”کچھ مسائل وہ (موجودہ حکومت) حل کریں گے اور کچھ ہماری اگلی حکومت کی جانب سے حل کیے جائیں گے۔“

انہوں نے سیاست دانوں پر زور دیا کہ وہ اس امتحان کے مواقع پر ایک خاص ”طرزفکر“ کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوں۔ ”ہم اس طرزفکر کے خلاف لڑ چکے ہیں، اور اس محاذ پر حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔“

انہوں نے کہا کہ ”ہم حکومت کی نجکاری کی پالیسی کو بے نقاب کریں گے اور اس کی دیگر کمزوریوں پر پارلیمنٹ میں اور اس کے باہر تنقید کریں گے اس لیے کہ ہم ان کی کمزوریوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہیں غلطی اس تاثر کے تحت کرنی چاہئیے کہ ان کی مسلسل نگرانی کر رہا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ایک وزیراعظم کے لیے ذلت اور ہتھکڑی ایک معمولی چیز تھی، لیکن 1999ء کی بغاوت کے بعد نواز شریف کی گرفتاری ایک ڈرامے کی طرح ظاہر ہوئی۔

”ہم نے گزشتہ انتخابات کے نتائج کو اس لیے تسلیم کرلیا کہ پچھلے پینسٹھ سالوں سے سیاسی قوتیں آپس میں ہی لڑتی رہی تھیں۔“

انہوں نے کہا کہ ایک ”بلّا“ دودھ پیتا رہا تھا، اور اب وہ پکڑا جاچکا ہے، اس کو رہا نہیں کرنا چاہئیے۔ ”ہمیں ان کے خلاف لڑنا ہے جنہوں نے ملک کو کمزور کیا۔“

حادثہ: جب تقریب کے اختتام پر لوگوں کے بڑے ہجوم نے جلدبازی میں باہر نکلنے کی کوشش کی تو بھگڈر مچنے سے جلسے کے مقام پر دیوار کا ایک حصہ گر گیا، جس سے جانی بند کے ایک شخص ایوب ابڑو ہلاک ہوگئے۔

ڈان اردو:

کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے پیٹرن ان چیف بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہےکہ صدر آصف علی زرداری نے وہ راستہ دکھایا جو اسٹیبلشمنٹ کے گمان میں نہ تھا۔

بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر اپنا سیاسی کیریئر شروع کرتے ہوئے طالبان کیخلاف جنگ کا اعلان کیا۔

گڑھی خدا بخش میں پاکستان کی سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ایک جلسے سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کو بزدل خان قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ دھرنوں سے ختم نہیں ہوگا۔ یہ ( دہشتگردی) کوئی کرکٹ میچ نہیں جو بلا گھمانے سے ختم ہوجائے گی۔

بلاول نے کہا کہ عوام نے جمہوریت قائم کرنے بے نظیر بھٹو کے قتل کا بدلہ لیا ہےانہوں نے کہا کہ اگر کسی طرح جمہوریت کو خطرہ ہوا تو وہ نواز شریف کا ساتھ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں دھاندلی کرکے پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے چند عناصر نہیں چاہتے تھے کہ پیپلزپارٹی حکومت میں آئے۔

بلاول بھٹو نے کہا لپ بزدل خان حکیم اللہ محسود کے غم میں نیٹو سپلائی بند کرا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کی حمایت کے لئے بہانے مت بناؤ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چار لوٹوں میں پانی ڈالنے سے سونامی نہیں آ جاتا۔

بلاول نے مسلم لیگ نون کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شیر کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ بدل گیا ہے۔ پنجاب میں دہشت گردوں کو پناہ دینے کا سلسلہ بند ہو گیا توشیر کا نعرہ لگاؤں گا۔ شیر ملا عمر جیسا جعلی خلیفہ بننا چاہتا تھا اور شیر بھی وہی دودھ پی کر پلا ہے جو دہشت گردوں نے پیا ہے۔

آصف زرداری سے ان کی زندگی کی ساتھی چھین لی گئی لیکن اس کے باوجود آصف زرداری نے خون اور آگ کے درمیان کھڑے ہو کر پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ پیپلز پارٹی کامیاب نہ ہو اور ہماری حکومت کی مدت پوری نہیں ہونے دینا چاہتی تھی ، کبھی میمو، کبھی سوئس کیسز اور کبھی دھرنوں کا تماشا لگا کر حکومت گرانے کی کوشش کی جب تمام حربے ناکام ہو گئے تو دھاندلی کا ڈرامہ رچایا گیا۔

بلاول بھٹو نے دہشتگردوں کو جنگلی جانور قرار دیتے ہوئے کہا کہ پھانسی پر چڑھ جائیں گے لیکن پاکستان کی سلامتی پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

انہوں نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو اپنا حقیقی سرمایہ قرار دیا۔

اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب سے پاکستان بنا سیاسی قوتوں کو لڑایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ جمہوریت کے خاطر نواز شریف کا ساتھ دیں گے لیکن انہیں ان کی کمزوریاں بھی یاد دلاتے رہیں گے۔

سابق صدر کا کہنا تھا کہ غربت بھی طالبانائزیشن کی بڑی وجہ ہے ہمیں اس مائنڈ سیٹ کے خلاف بھی لڑنا ہو گا۔