نئے صوبائی آرڈیننس سے حکومتی کارکردگی بہتر ہوگی: پی ٹی آئی
پشاور: پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ روز جمعرات کو اطلاعات کی رسائی کے ایک نئے قانون کی نقاب کشائی کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس قانون سے صوبے میں حکومتی کارکردگی کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے نفاذ سے ٹیکس دینے والے غریب عوام کو یہ پوچھنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا کہ آیا ٹیکس کی مد میں دی گئی ان کی رقم کن ترقیاتی منصوبوں پرخرچ ہورہی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو پشاور میں رائٹ ٹوانفارمیشن آفس کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے تحریکِ انصاف کی اتحادی حکومت پر زور دیا کہ وہ قانونی طریقہ کار کے اندر رہتے ہوئے عوام تک معلومات کی رسائی کو بہتر بنائیں۔
ان کا کہنا تھا یہ آرڈیننس عوام تک معلومات کی رسائی فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے حکومتی افسران کی کمزوریوں کا اندازہ لگا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح صوبے میں چیک اینڈ بیلنس کا ایک نظام متعارف ہوگا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے چیف کمیشنر اور دو اراکین پر مشتمل عوامی معلومات سے متعلق ایک کمیشن قائم کیا جائے گا جو اپیلیٹ فورم کی طرح خدمات سرانجام دے گا۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ نئے قانون سے پورا نظام بدل جائے گا اور کسی بھی مجرم افسر پر جرمانہ عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی لائیں گے جس کا آغاز خیبرپختونخوا سے ہوچکا ہے۔
اس دوران انہوں نے ہندوستان کے ایک سیاستدان نیتش کمار کا حوالہ دیا جہنوں نے ریاست بہار میں اسی طرح کا ایک قانون نافذ کر کے نظام کو کنٹرول کیا۔
ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے کے حوالے سے انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دھرنوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہوجاتے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل عوام سے جو وعدے کیے تھے، اپنے منشور کے مطابق ان وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
'ہم پختونوں کا مزید خون بہنے نہیں دیں گے اوران کے مسائل کے حل اور جائز حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت صوبے میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
صوبائی ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری ظفر علی شاہ نے اس آرڈیننس کی نمایاں خصوصیات کی وضاحت کی جن میں اپیلیٹ اتھارٹی کی کارکردگی، پانچ سو سے پچاس ہزار تک کے جرمانے، حکومتی کاموں میں بہتری اور ان سب پر عمل کرنے کے لیے حکومتی اقدمات شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا کے سابق چیف سیکریٹری رستم شاہ نے حکومت کی طرف سے کارکردگی کو مؤثر اور بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے اس اقدام کی تعریف کی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہاں بہت سے علاقے ہیں جن میں فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نوے فیصد ایسے اسکول قائم ہیں جہاں پانی میسر نہیں، جبکہ 80 فیصد میں واش رومز بھی موجود نہیں ہیں، اس لیے ان علاقوں میں فوری کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو متوجہ کیا اور جواب میں وزیراعلیٰ نے رستم شاہ کے ریمارکس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ نئے آرڈیننس سے حقیقی تبدیلی لائی جائے گی۔