نقطہ نظر

کلاشنکوف نہ رہے

پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبول ترین مہلک رائفل کے روسی موجد دنیا چھوڑ گئے۔

سن اُنیّس سو سینتالیس میں اپنی ایجاد کے بعد، دنیا بھر کے تنازعات میں عام استعمال ہونے والے ہتھیار کلاشنکوف کے ذریعے ستم ظریفانہ شہرت کے حامل موجد، میخائل تموفیوچ کلاشنکوف چورانوے برس کی عمر میں جمعرات کو چل بسے۔

کلاشنکوف کے نام سے شہرت حاصل کرنے والی اے کے فورٹی سیون رائفل کو سن اُنیّس سو بیالس میں ڈیزائن کیا گیا، جس کا پہلا نام تھا: 'اویٹومیٹ کلاشنکوف' یعنی خودکار کلاشنکوف۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں نے اسٹالن گراڈ کا محاصرہ کرلیا تھا اور روسی فوجی محاذ پراس لیے نہیں مارے جارہے تھے کہ انہیں کمک نہیں مل رہی تھی یا رسد کی قلت تھی بلکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کے مقابلے میں جرمن فوجی تیز ترین ایم پی فورٹی فور مشین گنوں سے مسلح تھے۔ بس، یہیں سے کلاشکوف کو بھی ایسی ہی رائفل بنانے کا خیال آیا۔

اُس کے بعد، موغا دیشو کے جنگجوؤں سے لے کر لائبیریا کے بچوں کی فوج، افغانستان کے مجاہدین سے لے کر ویت کانگ اور چی گویرا سے الفتح تک، اے کے فورٹی سیون، کلاشنکوف کے مقبول ترین نام سے سب کا پسندیدہ ہتھیار ہے۔ حتیٰ کہ قومی جذبے کے اظہار کے طور پر، اس نے موزمبیق کے قومی پرچم پر بھی جگہ پائی ہے۔

ڈیزائن کے سبب، اے کے فورٹی سیون کی با آسانی نقل تیار کی جاسکتی ہے (جبکہ اس ڈیزائن کے مالکانہ حقوق بھی نہیں) ساتھ ہی یہ کسی خاص ماحول کے پیشِ نظر ڈیزائن بھی نہیں کی گئی ہے۔ اسی لیے نمی اور ریتیلے، ہر طرح کے ماحول میں یہ پوری طرح کارگر ہے جبکہ اکثر جدید ترین ڈیزائن پر تیار کردہ رائفلز نمی اور ریتیلے ماحول میں استعمال کرنے پر جام ہوجاتی ہیں۔

کلاشنکوف کی یہی خوبی اس کی مقبولیت اور دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں تیار کیے جانے کی وجہ بنی ہے۔

اندازے کی بنیاد پر قائم تخمینوں کے مطابق، حقیقت یہ ہے کہ اس وقت زمین پر بسنے والے ہر ستر میں سے ایک شخص کے پاس روسی ساختہ کلاشنکوف موجود ہے جبکہ ان تخمینوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی وہ کلاشنکوفیں شامل نہیں جو روسی ساختہ رائفل کی ہو بہو نقل ہیں۔

حالیہ عشروں کے دوران، اس ملک کے حالات، کلاشنکوف کلچر کے پنپنے کی خاطر سازگار دیکھے گئے ہیں۔ سن اُنیّس سو اسّی کی دہائی کے دوران پاکستانی معاشرے میں (کلاشنکوف کے ساتھ) ہتھیاروں کا رجحان شروع ہوا تھا جو اب تک بدستور پھل پھول رہا ہے اور اس کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

بہر حال، کلاشنکوف کی موت اس بات کا عکاس ہوسکتی ہے کہ کسی ہتھیار کے مہلک ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کن ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان میں تشدد کی وجوہات سے نمٹ کر قیام امن کی خاطر راستے تو موجود ہیں لیکن اُن پر رکاوٹیں کھڑی ہیں۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ڈان اخبار