رہنما کی موت
نیلسن منڈیلا کی قد آور شخصیت کے سامنے دنیا کا سب سے زیادہ قابلِ احترام اعزاز 'نوبل پرائز' بھی بہت چھوٹا پڑتا ہے۔ شاید اُن کے لیے سب سے عمدہ خراجِ تحسین بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے یہ الفاظ تھے: 'خدا بہت اچھا ہے، جس نے ہمیں جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا دیا۔' وہ اچھا ہونے سے آگے، اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ جیسا کہ ہر جگہ ہوا، جنوبی افریقہ کے سفید فام نسل پرستوں کو جلد یا بدیر زوال پذیر ہونا تھا لیکن بات یہ ہے تھی کہ اختتام کیسے ہو۔ اپنے دور کے دوسرے حریت پسندوں کے مقابلے میں منڈیلا اس لیے کہیں زیادہ بُلند مقام پر فائز ہیں کہ وہ استعمار کا خاتمہ چاہتے تھے لیکن بنا خوں ریزی کے۔
سفید فام کے بوجھ نے نوآبادیاتی دورمیں کئی طور طریقوں سے اپنا اظہار کیا ہے۔ 'کتے اور ہندوستانیوں کا داخلہ منع ہے' یہ سفید فام نوآبادیاتی حکمرانوں کے نسلی امتیاز کی متعدد مثالوں میں سے ایک ہے لیکن جنوبی افریقہ میں سفید فام حکمرانوں کے سفاکیت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
سفید فام حکمرانوں نے یہاں ذات اور کھال کی رنگت پر انسانوں کو تقسیم کر کے نسلی امتیاز کو پروان چڑھایا۔ ان کے عہد میں ایک عام افریقی کا درجہ جانور کی حد تک محدود کیا جاچکا تھا۔ یہ کچھ ایسے ہی تھا جیسے جنوبی ایشیا میں انگریزوں نے 'سول لائنز' کے رہائشی علاقے بنائے تاکہ کسی مقامی کو ان کا ہمسایہ بننے کا 'شرف' حاصل نہ ہوسکے۔
جنوبی افریقہ میں قانون بنائے گئے تھے، جس کے تحت اگر کسی مقامی سیہ فام کو اپنے مخصوص 'بلیک زون' سے نکل کر سفید فاموں کے علاقے سے گذرنا پڑتا تو اس کے لیے خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا تھا۔
جنوبی افریقہ کی مجموعی طور پر اسّی فیصد سرزمین، جس پر سیہ فاموں کا جائز حق تھا مگر نسلی تفریق پر مبنی قوانین کے ذریعے اسے سفید فام حکمراں اقلیت کے لیے محفوظ بنادیا گیا تھا۔
منڈیلا نے نازی ازم کے خلاف اس وقت آواز بُلند کی جب ہٹلر خود اپنی پناہ گاہوں میں تھا۔ منڈیلا کو سن اُنیّس سو باسٹھ میں گرفتار کیا گیا اور پھر ستائیس سال انہوں نے قید خانہ کے بند دروازے کے پیچھے گذار دیے لیکن جب درِ زنداں کھلا تو وہ فاتح تھے لیکن شاید ان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی لوگوں کے جذبہ انتقام پر غالب آنا ہے۔
انہوں نے اپنی عوام کی روح پر لگے گھاؤ مندمل کرنے کی خاطر سچ اور مفاہمتی (ٹرتھ اینڈ ری کنسائی لیشن) کمیشن قائم کیا جس سے کافی مدد ملی،اس کے بعد، اب جنوبی افریقہ خود کو ایک طاقتور حیثیت میں پاتا ہے۔
منڈیلا صلح جُو انسان تھے اوراس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ انہیں جنوبی افریقہ کے آخری سفید فام صدر ایف ۔ ڈبلیو۔ ڈی کلارک کی بھی گراں قدر حمایت حاصل رہی تھی لیکن منڈیلا کے سوا ایسا کون ہوگا کہ جو نسل پرستی سے آزاد ایسے ملک میں جہاں اقتدار کی منتقلی ناقابلِ تصور ہو، وہاں صرف ایک مدت کے لیے صدر رہنے کا انتخاب کرے۔
خواہ وہ اوسط درجے کے ہوں یا آمریت پسند، دنیا کے غالب رہنماؤں میں، منڈیلا اپنی منفرد حیثیت کے ساتھ نہایت نمایاں مقام پر کھڑے ہیں۔ حریت پسند، جمہوریت پسند اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم صلح جُو ۔۔۔ افریقہ کی پہچان یہ قیادت ہمت، دانش اور دور اندیشی کا امتزاج تھی۔نیلسن منڈیلا کی موت، بیسویں صدی کے عظیم حریت پسندوں اور قائدین میں سے ایک کی موت ہے، اب وہ ہمیشہ تاریخ میں مرکزِنگاہ رہیں گے۔