نیوکلیئر آپشن
پاکستان میں سب سے بڑی سویلین نیوکلیئر پاور سہولت کی تعمیر کے عزم کے ساتھ، وزیراعظم نے گذشتہ ہفتے کراچی میں ایک نئے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ دیا ہے۔ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی مدد سے ملک میں بجلی کے سنگین بحران کو دور اور طلب کو پورا کرنے میں مدد دینے کی خاطر یہ ایک عملی قدم ہے۔
کراچی کے ساحل پر واقع اس پلانٹ سے بائیس سو میگاواٹ نیو کلیئر بجلی پیدا ہونے کی توقع ہے۔ یہ منصوبہ مشرف دور سے چلا آرہا تھا تاہم موجودہ انتظامیہ قومی توانائی کے زمرے میں اسے بہت زیادہ اہمیت دے رہی ہے: نواز شریف نے نیو کلیئر پاور پلانٹس کے لیے مزید چھ مقامات کی نشاندہی کی ہے۔
حکومت کو امید ہے کہ وہ اپنے نیوکلیئر انرجی وژن سن دو ہزار پچاس کے تحت چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکے گی، فی الوقت نیشنل گرڈ سسٹم کو نیوکلیئر پاور پلانٹ سے سات سو میگاواٹ بجلی مل رہی ہے۔
موسمِ گرما کے ایّام میں طلب اور فراہمی کے دوران فرق چار ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتا ہے، ایسے میں نیشنل گرڈ میں اضافی بجلی کی شمولیت خوش آئند ہے۔
پاکستان کو توانائی کی اشد ضرورت ہے، ایسے میں نیوکلیئر پاور، طلب اور فراہمی کے درمیان موجود فرق دور کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
ہائیڈل، تھرمل، تیل اوردیگر متبادل ذرائع سے مہنگی پیداوار کے مقابلے میں، نیو کلیئرپاور کی پیداواری لاگت کم ہے لیکن منصوبہ سازوں کی توجہ کا کم از کم ایک حصہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے بنیادی ڈھانچے پر ضرور مرکوز ہونا چاہیے۔
جو پاور پالیسی بیان کی گئی ہے، اس سے دو سوال ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اول، کراچی منصوبے کی کُل لاگت دس ارب ڈالر کے قریب ہے۔ کیا حکومت یہ اور دیگر نیو کلیئرپاور پراجیکٹس کے لیے درکار فنڈز کا بندوبست کرسکتی ہے؟
دوئم، اگرچہ بحیرہ عرب کے کنارے یہ نیا یونٹ تو چین تعمیر کرے گا لیکن کیا دیگر مجوزہ پلانٹس کی تعمیر کے لیے بیجنگ قدم بڑھائے گا؟ بہرحال، نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی پابندیوں کے سبب پاکستان کے پاس چین سے رجوع کرنے کے علاوہ زیادہ آپشنز موجود نہیں یا پھر حکومت نے متبادل منصوبہ بندی کی ہے؟
نئے نیو کلیئرمنصوبے کے لیے جتنی اہمیت نقل و حمل (لاجسٹک) کی ہے، اتنی ہی اہمیت ماحولیات اور سیفٹی سے متعلق تحفظات کی بھی ہے۔ جہاں تک نیو کلیئر سیفٹی کا تعلق ہے تو پاکستان کا ریکارڈ اچھا رہا ہے تاہم منصوبے کی تعمیر سے قبل مزید شفافیت اور اس پر عوامی مباحثوں کی ضرورت ہوگی۔
زلزلے کی پٹی (سیسمک زون) یا پھر آبادی کے قریب پلانٹ کی تعمیر نہ کرنے کے حوالوں سے باقاعدہ ماحولیاتی تجزیے (انوائرنمنٹل اسیسمنٹ) کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہوگی۔ سن دو ہزار گیارہ میں جاپان کے فوکو شیما نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تباہی کے بعد یہ تحفظات نہایت اہمیت کےحامل ہیں۔
مثال کے طور پر، کراچی کی ساحلی پٹی پر آباد کچھ کمیونٹیز نے اپنے علاقے کے قریب نئے نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے عوامی تحفظات کو تسلی بخش انداز میں دور کرے۔
انرجی مکس میں تنوع کے لیے نیوکلیئر آپشن مضبوط ہے، اس سے پہلے کہ سلامتی کے تحفظات نافذ ہوں، پاکستان کو نیوکلیئر انرجی کی سواری پہ سوار ہوجانا چاہیے۔