دنیا

تھائی وزیر اعظم کا مستعفی ہونے سے انکار

تھائی لینڈ کی وزیر اعظم نے مظاہرین کی جانب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ مسترد کر دیا، اپوزیشن رہنما کیخلاف بغاوت کا مقدمہ۔

بینکاک: تھائی لینڈ کی وزیر اعظم ینگ لک شناواترا نے اپوزیشن مظاہرین کی جانب سے جمہوری نظام معطل کرنے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ تھائی لینڈ میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جہاں شرکاء نے فوج سے جمہوری نظام کو ہٹاتے ہوئے اقتدار میں آنے کا مطالبہ کیا تھا۔

پیر کو بھی سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جہاں اہم عمارتوں کے سامنے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کی گئیں۔

تھائی عدالت نے پیر کو حزب اختلاف کے رہنما ستھپ تھاگ سبان کے خلاف بغاوت کے جرم میں وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔

ڈپٹی میٹروپولیٹن کمانڈر نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بغاوت کے جرم میں وارنٹ جاری کر دیے گئے ہیں جس میں سزائے موت یا عمر قید کی دی جا سکتی ہے۔

سھتپ کو پہلے ہی قتل کے مقدمے کا سامنا ہے جہاں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2010 میں بطور نائب وزیر اعظم مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا۔

تقریباً ایک ہفتے سے جاری ان مظاہروں میں متعدد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

رات گئے وزیر اعظم کے مخالفین اور حامیوں میں جھڑپوں کے دوران دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے، آج پولیس نے گورنمنٹ ہاوٴس میں داخل ہونے والے مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال کیا۔ احتجاج کے شرکاء پولیس اسپورٹس کلب کے احاطے میں بھی داخل ہو گئے جہاں وزیر اعظم موجود تھیں۔

تھائی لینڈ کے دارالحکومت میں حالیہ خونی تصادم 2010 کے بعد سب سے زیادہ ہولناک واقعہ ہے جہاں فوج نے سابق سربراہ تھاکسن کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا۔

ٹیلی کام انڈسٹری کے ٹائیکون ملک کے سابق متنازع سربراہ تھاکسن شناورتا کو 2006 میں بغاوت کے بعد ہٹا دیا گیا تھا اور اب وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں تاہم ابھی بھی ان کو وزیر اعظم اور ان کی بہن ینگ لک کی حکومت کے پیچھے موجود سب سے طاقتور شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ وہ موجودہ جمہوری حکومت کو ایک عوامی کونسل سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

اس صورتحال میں ملک کی معیشت اور خصوصاً سیاحت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں کیونکہ موجودہ سیزن میں سیاحوں کی بڑی تعداد تھائی لینڈ کا رخ کرتی ہے۔

ایک ہفتے قبل شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد ٹی وی پر اپنے پہلے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ وہ احتجاجی رہنماؤں کے مطالبات تسلیم نہیں کریں گی کیونکہ انہوں نے ملک کے قانون کو توڑا ہے۔

انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب نہ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو خوش کرنے کے لیے جو ہو سکے گا میں کرنے کی کوشش کروں گی لیکن بحیثیت وزیر اعظم میں سب کچھ آئین کے تحت کرنے کی پابند ہوں۔

دباؤ کا شکار وزیر اعظم نے کہا کہ وہ مستعفی ہونے یا دوبارہ الیکشن کے انعقاد پر غور کر سکتی تھیں اگر مظاہرین ان اقدامات کو ناکافی قرار نہ دیتے۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قیام امن کی بحالی کے لیے حکومت کے پاس تمام آپشن کھلے ہیں۔

یاد رہے کہ اتوار کو سابق اپوزیشن رکن اسمبلی ستھپ تھا سبان کی زیر قیادت مظاہرین نے وزیر اعظم اور تینوں افواج کے سربراہان کے ساتھ ہونے والی ایک خفیہ ملاقات میں ینگ لک کی حکومت کو دو دن میں اقتدار چھوڑ کر عوام کے حوالے کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا۔

مظاہرین نے انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سابق سربراہ تھاکسن کے دور کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

سن 2011 میں ہونے والے انتخابات کے بعد برسر اقتدار آنے والی ینگ لک نے کہا کہ اس بحران کا ایسا حل ہونا چاہیے جو ملک کی اکثریت تسلیم کرے۔

تاہم پیر کو مظاہرین گزشتہ دنوں کی نسبت زیادہ بپھرے ہوئے دکھائی دیے لیکن سیکورٹی فورسز نے وزیر اعظم آفس اور پولیس ہیڈ کوارٹر پر لگی رکاوٹیں عبور نہیں کرنے دیں۔

ان مظاہروں کا آغاز حکومت کی جانب سے ایمنسٹی بل مسترد کیے جانے کے بعد ہوا تھا جہاں مخالفین کو خدشہ ہے کہ اس سے سابق ملکی سربراہ تھاکسن کو اقتدار میں آنے میں مدد ملے گی۔

مظاہرین کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی آتی جا رہی ہے جہاں 24 نومبر کو اس احتجاج میں تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار افراد نے شرکت کی تھی اور اہم وزارتوں سمیت مختلف عمارتوں کا محاصرہ کر لیا اور کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ ان مظاہرین کا مقصد فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دینا ہے۔

تھائی لینڈ میں 1932 سے اب تک 18 مرتبہ فوج نے ملک کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لی جس کی تازہ مثال 2006 میں تھاکسن کی حکومت کو برطرف کرنا تھا لیکن موجودہ صورتحال میں فوج اقتدار میں آنے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔

تھائی لینڈ: مظاہرین کا فوج سے حکومت گرانے کا مطالبہ