پاکستان

ڈاکٹر شکیل آفریدی کا جیل میں بہتر انتظامات اور حقوق کا مطالبہ

شکیل آفریدی کے وکیل نے پھر اس بات کو دوہرایا ہے کہ ان پر غداری کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔

پشاور: اسامہ کی تلاش میں سی آئی اے کی مدد کے شبہ میں گرفتار پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی نے جیل میں بہتر انتظامات کا مطالبہ کیا ہے اور اتوار کے روز ان کے وکیل نے پھر اس بات کو دوہرایا ہے کہ ان پر غداری کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔

شکیل آفریدی نے ایک خط میں کہا ہے کہ انہیں اپنے وکیل تک رسائی فراہم کی جائے۔ ان کے وکیل سمیع اللہ آفریدی نے کہا ہے کہ یہ خط اصلی ہے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی سی آئی اے کی مدد کے لیے ایبٹ آباد میں غداری کے الزام میں مئی 2011ء کو حراست میں لیا گیا تھا۔

ان کو ابتدائی طور پر تیتیس سال قید اور جرمانہ کی سزا دی گئی تھی لیکن پشاور کورٹ نے مقدمے پر نظر ثانی کرتے ہوئے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی طرف سے شکیل آفریدی کے خط کی حاصل کی گئی کاپی میں انہوں نے کہا کہ مجھے ایک جھوٹے کیس میں گرفتار اور ملوث کیا گیا ہے۔

خط میں ان کا کہنا ہے کہ شاید میں وہ واحد پاکستانی ہوں جسے اپنے وکیل تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے اور یہ کیسا انصاف ہے؟

خط میں آفریدی نے کہا ہے کہ وکیل تک رسائی ان کا قانونی حق ہے انہوں نے مزید کہا کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور پاکستان کا ایک زمہ دار شہری ہوں۔

انہوں نے جیل میں بہتر سیکیورٹی فراہم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کن وجوہ کی بنا پر انہیں سزا دی جارہی ہے۔

آفریدی کو ایبٹ آباد میں ویکسی نیشن پروگرام کو چلانے کے لئے سی آئی اے کی طرف سے بھرتی کیا گیا تھا جس کا مقصد ڈی این اے نمونے حاصل کرنا تھا جو اسامہ کی تلاش میں مدد کر سکتے تھے تاہم طبی عملہ ان ( اسامہ بن لادن) کے خاندان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

ڈاکٹر کو 2012 میں پاکستان کے قبائلی انصاف کے نظام کے تحت غداری کے جرم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔ لیکن یہ سزا انہیں سی آئی اے سے روابط پر نہیں دی گئی تھی جس کے بارے میں کورٹ کا کہنا تھا کہ یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں بلکہ ان پر عسکریت پسندوں سے تعلقات کا الزام تھا۔

آفریدی کو ایک قبائلی عورت کے بیٹے کو ہلاک کرنے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔