پاکستان

مراعاتی پیکیج میں سرمایہ کاری کی حد ختم

وزیراعظم کے اعلان کردہ مراعاتی پیکج سے حکومت نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اس میں سرمایہ کاری کی حد واپس لے لی ہے۔

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے کاروباری برادری کے لیے ایک حوصلہ افزاء پیکج کا جو اعلان کیا تھا، حکومت نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس میں نمایاں تبدیلی کرتے ہوئے اس میں سرمایہ کاری کی حد ختم کردی ہے۔

جمعہ 29 نومبر کو وزیراعظم کے سیکریٹیریٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”گرین فیلڈ صنعتی اور توسیعی منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، اس کے علاوہ اس میں پاور پلانٹ، کم لاگت کے گھروں کی تعمیراتی منصوبے، مویشی بانی، کان کنی، اور تھر کول پروجیکٹ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کان کنی کے منصوبےاور دیگر توسیعی منصوبے جو کام کررہے ہیں، یا ان کی شروعات اگلے سال یکم جنوری کے بعد ہونی ہے، ان سب کو یہی سہولت حاصل ہوگی۔“

جمعرات کو کاروباری طبقے کے معروف افراد اور چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا تھا کہ ایک کروڑ روپے سے لے کر پچاس ارب روپے کی سرمایہ کاری کے معاملے میں حکومت اور محکمہ انکم ٹیکس کے حکام ذریعہ آمدنی بارے میں پوچھ گچھ نہیں کریں گے۔

نہایت دلچسپ امر یہ ہے کہ جمعرات کو وزیراعظم کے دفتر کے پریس ونگ کی جانب سے تقریر کے مسودے میں کہا گیا تھا کہ ”ایسے گرین فیلڈ صنعتی منصوبے جو قائم ہوں یا یکم جنوری 2014ء کے بعد شروع کیے جارہے ہوں، میں کم سے کم دو کروڑ پچاس لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کسی بھی قسم کی تحقیقات یا جانچ پڑتال سے مستثنا ہوگی، جس سے کم از کم پانچ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہوں، اور اس کے بعد ہرپچاس لاکھ کی سرمایہ کاری سے ایک اضافی ملازمت پیدا ہو۔“

وزیراعظم نے کم از کم حد کو ڈھائی کروڑ سے ایک کروڑ تبدیل کردیا تھا۔ انہوں نے پہلے گرین فیلڈ منصوبوں کو دی جانے والی مراعات کی سہولت توسیعی منصوبوں کو بھی فراہم کردی تھی۔انہوں نے ایک منفی فہرست کے بارے میں بتایا تھا کہ اس میں شامل صنعتیں مراعات کی حقدار نہیں سمجھی جائیں گی۔تاہم تاجروں کے مطالبے پر انہوں نے کہا کہ ان کی تجاویز پر غور کرنے کے بعد اس کو حتمی شکل دی جائے گی۔

اس منفی فہرست میں اسلحہ اور گولہ بارود، دھماکہ خیز مواد، کھاد، شوگر، سگریٹ، کولا مشروبات، سیمنٹ، ٹیکسٹائل اسپننگ ملز، فلور ملز، نباتاتی گھی اور پکانے کے تیل کی صنعتیں شامل ہیں۔

وزیراعظم سیکریٹریٹ نے کہا کہ اس مراعاتی پیکیج سے فائدہ اُٹھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم سرمایہ کاری کی کوئی حد نہیں ہوگی۔

ایک سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ اس مراعاتی پیکج اور ٹیکس میں چھوٹ کا اعلان ماضی میں بھی مخصوص مقاصد کے لیے کیا گیا تھا، لیکن بعد میں طاقتور لابیوں نے اثر و رسوخ استعمال کرکے اس میں مزید شعبوں کا اضافہ کروالیا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہمیں اس پالیسی کے حتمی ورژن کا انتظار کرنا پڑے گا، جب یہ باضابطہ طور پر پاکستان کے گزٹ کا حصہ نہیں بن جاتی۔تب تک سیاسی حکومت اسے ترامیم کے لیے ہمیشہ کھلا رکھے گی۔“

وزارت خزانہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک علیحدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ مراعات منشیات ایکٹ 1997ء ، انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کے جرائم کے تحت حاصل ہونے والے فنڈز پر لاگو نہیں ہوگی۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ جب سرمایہ کاری کے ذرائع کے بارے میں کوئی سوال ہی نہیں کیا جائے گا اور کوئی جانچ پڑتال ہی نہیں کی جائے گی تو پھر اس کی درجہ بندی کیونکر ہوسکے گی۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ کثیرالجہتی ٹیکس مراعاتی پیکج سے سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا، ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی کلیکشن اور ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوگا، اور معروف ٹیکس دہندگان کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے گا۔

وزارت خزانہ نے پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی حکومت کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے اسٹاک ایکسچینج کے لیے محرک پیکیج کے ذریعے فہرست میں درج کمپنیوں اور عوامی کمپنیوں کو کچھ شرائط کے تحت سرمایہ کاری کی نوعیت اور ذرائع کی جانچ پڑتال سے مستثنا قرار دیا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت نے صنعتی ترقی کےفروغ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ یہ انکم ٹیکس کی کلیکشن میں اضافے اور اس کے ساتھ ساتھ موجودہ ٹیکس دہندگان کو ٹیکس آڈٹ سے چھوٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے، وزیراعظم بھی ایسے ٹیکس دہندگان کو جنہوں نے اس سال پچھلے سال سے پچیس فیصد اضافی ٹیکس جمع کرایا ہے، انہیں آڈٹ سے مستثنا قرار دے چکے ہیں۔

اس کے علاوہ وزیراعظم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ کو تیس نومبر سے بڑھا کر پندرہ دسمبر کر چکے ہیں،اور یہ بھی کہ جنہوں نے پہلے ہی ٹیکس ریٹرن جمع کرادیا ہے، وہ اس وقت تک نظرثانی سے آزاد ہوں گے، جب تک کہ اس حوالے سے نئے اقدامات سامنے نہیں آجاتے۔