کراچی کی یاد میں: فراق
آپ اس جگہ سے کیسے الگ ہو سکتے ہیں جہاں آپ پیدا ہوۓ اور پلے بڑھے؟ آپ ناقابل بیان بیان طور پر اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں- اچھا ہو یا بڑا، تلخ ہو یا شیریں، یہ آپ کے ڈی این اے کا حصّہ بن جاتا ہے-
کراچی، میرا شہر، میرے وجود کا حصّہ ہے- مجھے یاد ہے جب میں نے اپنے ہوٹل کی کھڑکی سے باہر آسمان کی طرف دیکھا، یہ جانتے ہوۓ کہ اب میں ایک اجنبی جگہ کو اپنا گھر کہوں گی مجھے جو گہرا دکھ محسوس ہوا وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا-
تب میں اپنی فیملی یا دوستوں کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھی بلکہ اس شہر سے اپنی وابستگی کو یاد کر رہی تھی- ایک جگہ جو میرے دل کے اتنے قریب ہے کہ میرے نزدیک وہ ایک جیتی جاگتی، سانس لیتی ہستی بن گئی ہے- ایک ایسا عظیم شہر، جس سے آپ اچھی طرح واقف ہوں، لیکن پھر بھی اس کے تاریک پہلو آپ کے لئے اجنبی ہوں-
جب میں کراچی کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کرتی ہوں تو میری فیملی اور دوست مجھ پر ہنستے ہیں، وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ جیسی یہاں کی امن و امان کی صورتحال ہے یہاں رہنا مشکل ہے- حالانکہ میں یہاں نہیں رہتی لیکن جب بھی میرا شہر زخمی ہوتا ہے میرا دل خون کے آنسو روتا ہے – ہر وہ شخص جس نے زندگی میں کبھی محبت کی ہواچھی طرح جانتا ہے کہ اپنے محبوب کی خامیوں کو نظر انداز کر دینا کتنا آسان ہے-
کیا کراچی میں میری زندگی ‘پھولوں کی سیج’ تھی؟ جواب ہے ‘نہیں’-
میں سات سال کی عمر میں ایک چھوٹے شہر سے کراچی آئی- اس عمر میں میری زندگی کا محور میرا اسکول اور میرے بھائی بہن تھے- ہمیں ایک مقامی پبلک اسکول بھیجا گیا، اس زمانے میں اسکول سٹیٹس سمبل نہیں ہوتے تھے-
اسکول کے جس پرائمری سیکشن میں، میں پڑھتی تھی وہ میری بہنوں کے سیکنڈری سیکشن سے الگ تھا- ایک چھوٹے سے قصبے سے آنے والے کے لئے ایک بڑے شہر کے سماجی تانے بانے کا حصّہ بننا کافی مشکل ہوتا ہے- ہمارے لئے دوست بنانا ناممکن تھا- لڑکیاں بہت مطلبی اور سنگدل تھیں-
پڑھنے والوں کو ذرا اس جگہ کا نقشہ بتا دوں، کہ اسکول کی حد جہاں ختم ہوتی تھی وہاں بڑی بڑی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں. کہانیاں مشہور تھیں کہ وہاں ایک سر کٹی عورت کا بھوت اکثر گھومتا نظر آتا ہے- کوئی وہاں نہیں جانا چاہتا تھا، زیادہ بہادر بھی نہیں- کسی نامعلوم شے کو جگانا اور اکسانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ سات سال کی عمر میں یہ سب بالکل حقیقی اور مشکل لگتا تھا-
میری بہنوں اور میری کوئی دوست نہیں تھیں، لیکن انہیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی، جبکہ دوسری طرف میں اپنی بہنوں کو اپنے جھوٹ موٹ کے دوستوں اور ان کے ساتھ موج مستی کے جھوٹے قصّےسناتی- انہیں کبھی بھی مجھ پر شک نہ ہوا-
تب مجھے ایسا کر کے اچھا تو محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ انہیں میری باتوں پر کیسے یقین آجاتا تھا- آخر کو میرے نزدیک وہ عقل و دانش کا مینار تھیں- یاد رہے، وہ دونوں خود فقط دس اور گیارہ سال کی تھیں-
آہستہ آہستہ، ہم نے اس بڑے شہر کو قبول کر ہی لیا- اور پھر اس شہر سے میری محبت کا سلسلہ شروع ہوا- میں ہمیشہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ کس طرح یہاں کے لوگ اپنی روز مرّہ کی جدوجہد کے باوجود ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں-
اب میں کسی سے بھی ان کی سماجی و معاشی حیثیت سے ہٹ کر بات چیت کر سکتی تھی- کراچی والوں کا الگ ہی انداز ہے وہ شہر اور اس کے مسائل پر تبصرہ بھی مزاحیہ انداز میں کرتے ہیں- آپ کو اب بھی ایسے لوگ ملیں گے جو مصیبت کے وقت میں مدد کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں-
میں پاکستان بھر میں گھومی ہوں لیکن کراچی کو بہت مختلف اور آزاد پایا- دوسری جگہوں کی طرح یہاں پر افواہیں گردش نہیں کرتی پھرتیں، یہاں کے لوگ افواہ بھی اپنی مرضی سے چنتے ہیں- میں نے اپنی زندگی میں کروڑ پتیوں کو فقیر، اور فقیروں کو کروڑپتی بنتے دیکھا ہے-
کراچی میں اب بھی ان لوگوں کے لئے مواقع موجود ہیں جن کو اپنی قسمت اور صلاحیت منوانے کا حوصلہ ہے- یہ شہر ترقی بھی پیش کرتا ہے اور خطرات بھی- مجھے ایسا انوکھا ملن، ایسا جوش اور سب سے بڑھ کر ایسی مانوسیت اور کہاں ملے گی- تو اب آپ میرا مسئلہ سمجھ رہے ہیں؟ مجھے ایک ایسی چیز سے محبت ہے جو اب میری نہیں ہے-
جب میں جوان تھی تو یہ سوچتی تھی کہ ایک مرد میری زندگی کی تنہائی کو ختم کر دے گا- لیکن اب اس ادھیڑ عمری میں مجھے اس بات کا احساس ہوا ہے کہ ایک محبت کرنے والا شوہر اور پیارے پیارے بچے، ان تمام رشتوں کی کمی کا ازالہ نہیں کر سکتے جو کسی اور جہان، کسی اور وقت میں پیچھے رہ گۓ ہیں-
کہتے ہیں کہ اگر کوئی انسان اس دنیا میں کچھ ادھورا چھوڑ کر مرجاۓ تو کبھی کبھی اسکی روح دوسرے جہان کا سفر نہیں کرپاتی، وہ انتہائی ازیت کی حالت میں بھٹکتی رہتی ہے- میں تقریباً بیس سالوں سے اس اذیت سے گزر رہی ہوں اور دونوں جہانوں کے بیچ اٹکی ہوئی ہوں، نہ میں ایک کو پوری طرح اپنا سکتی ہوں، نا ہی دوسرے سے ٹوٹے ہوۓ رابطے دوبارہ جوڑ سکتی ہوں، میں بالکل ایک بھٹکتی ہوئی روح کی طرح ہوں-
یہ بھی کہاں جاتا ہے کہ ہماری موت اور روز محشر کے بیچ ہماری روحیں ‘برزخ’ میں رہیں گی، ہماری زندگی اور ابدی منزل کے بیچ کا مقام- میں نے اپنی اسی زندگی میں ‘برزخ’ کا مزہ چکھ لیا ہے- میں ایک دوسرے برزخ کی اذیت کیسے جھیلوں گی؟
ترجمہ: ناہید اسرار
مصنف میلبورن میں رہائش پزید ہیں. وہ پہلے ایک پبلشنگ ہاؤس میں بطور سب ایڈیٹر اور سرمایہ کاری تجزیہ نگار کا کام کر چکی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔