پاکستان

مشرف پر غداری کا مقدمہ۔ وزارت قانون فنڈز کی منتظر

وزارت قانون نے خصوصی عدالت کے قیام کے لیے ابتدائی اخراجات کی مد میں اکتیس لاکھ روپے فنانس ڈویژن سے طلب کیے ہیں۔

اسلام آباد: وزارت قانون کے ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ وزارت انصاف و قانون نے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پر بغاوت کا مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت کے قیام کی خاطر ابتدائی اخراجات کی مد میں اکتیس لاکھ روپے فنانس ڈویژن سے طلب کیے ہیں۔

سابق فوجی صدر کے خلاف یہ مقدمہ ملک کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہوگا، جو تین نومبر 2007ء کو ان کے حکم پر ایمرجنسی کے نفاذ کے سے متعلق ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس رقم کے اجراء ک ایک درخواست گزشتہ ہفتے فنانس ڈویژن کو بھیجی گئی تھی، لیکن وہاں سے تاحال کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ وزارت قانون کو اکتیس لاکھ روپے خصوصی عدالت کے ججوں کی روزانہ کی بنیاد پر نقل و حرکت پر خرچ کرنے کے لیے درکار ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب، بلوچستان ہائی کورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس یاور علی پر مشتمل تین رکنی عدالت کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کی ذمہ داری وزارت قانون کو سونپی گئی تھی۔ پچھلے ہفتے ہی وزیراعظم نواز شریف نے ان ججوں کے ناموں کی منظوری دی تھی۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس فیصل عرب خصوصی عدالت کے سربراہ ہوں گے، انتہائی سینئر ججوں کی یہ عدالت اسلام آباد میں فیڈرل شریعت کورٹ کی عمارت میں اس مقدمے کی سماعت کرے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ججوں کے لیے لاجسٹک سپورٹ میں فضائی سفر، گاڑیاں، طعام و قیام اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔

اس رقم کی وصولی کے بعد کمرہ عدالت کو مقدمے کی کارروائی کے لیے مطلوبہ سامان سے آراستہ کردیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اکتیس لاکھ روپے کی یہ رقم ابتدائی فنڈ ہے، اور اس میں خصوصی پراسیکیوٹر کی فیس شامل نہیں ہے، اس لیے کہ یہ وزارت داخلہ کی طرف سے ادا کی جائے گی۔

وزارت خزانہ کے ایک سینئر اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ وزارت قانون کی طرف سے ضمنی گرانٹ کے لیے یہ درخواست موصول ہوگئی تھی، اور اس معاملے پر کام ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ درخواست مالیاتی مشیر کے پاس ارسال کردی گئی تھی، ان کی منظوری کے بعد اسے فنانس ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری برائے اخراجات کے پاس بھیج دیا جائے گا۔

اس سلسلے میں ایک سمری سیکریٹری خزانہ کو بھیجی جائے گی، اور اس کی توثیق کے بعداسے وزیرِ خزانہ کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔