پاکستان اور غذائی قلت
الیکشن ختم ہوچکے ہیں اور فتحیاب سیاستداں اور ان سے وابستہ دیگر بڑے نام ملک کو معاشی استحکام کی جانب لے جانے کے خواہشمند ہیں۔
نواز شریف نے انتخابات سے قبل بھی معاشی بہتری کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا تھا ۔ انہوں نے ٹیکس نظام، معاشی استحکام ، دہشتگردی کی روک تھام اور امن وامان کی بھی ترجیحات میں شامل رکھا تھا۔ جبکہ اسی طرح کی دیگر اہم چیلنجز بھی ہیں جن میں غربت ایک اہم مسئلہ ہے جس کا ملکی معیشت سے بہت گہرا تعلق ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی غربت نے شدید اور ہلاکت خیز بھوک کو جنم دیا ہے۔ گزشتہ برس ورلڈ بینک نے پاکستان میں بچوں میں خوراک کی شدید کمی سے خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہاں بچوں اور خواتین میں اہم وٹامن کی کمی کی شرح دنیا میں بلند ترین ہے۔ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) نے پاکستان میں غذائی کمی کو عوامی صحت کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
خوراک اور غذا کی کمی بچوں اور خواتین کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کو بری طرح متاثر کرتی ہے اور انہیں مختلف انفیکشن لاحق ہونے کے خطرات کو بڑھاتی ہے۔ یہ خطرہ پوشیدہ ہے، خاموش اور میڈیا کی نظروں سے ماورا ہے۔
کیونکہ ان کے متاثرہ افراد غریب اور مفلوک الحال انسان ہوتے ہیں۔ ان کی آواز آگے تک نہیں پہنچ سکتی اور وہ اوجھل ہی رہتے ہیں۔ دوسری جانب حالیہ آفات، سیلاب اور دیگر حادثات سے لاتعداد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ پھر دہشتگردی نے صورتحال مزید خراب کردی اور اس کا نتیجہ شدید غذائی عدم تحفظ کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ( پی ایم اے) اس پر فکر مند ہے۔ ' صحت پر بہت کم خرچ کیا جاتا ہے اور اسی لئے ثمرات عام افراد تک نہیں پہنچ پارہے۔ ہمیں بڑے پیمانے پر تعلیم، سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور صحت کے جدید نظام سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔ پی ایم اے یقین رکھتی ہے کہ حکومت مجموعی قومی آمدنی ( جی ڈی پی) کا کم ازکم چھ فیصد حصہ صحت کیلئے مختص کرے۔ '
پاکستان میں 2011 میں کئے گئے نیشنل نیوٹریشن سروے نے ملک میں غربت کی صورتحال پر خطرے کی گھنٹیاں بجائی ہیں۔ اس بھرپور سروے میں ملک کے چاروں صوبوں میں 30,000 گھروں کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں صرف پنجاب کی صورتحال تھوڑی بہتر تھی اور بلوچستان ، سندھ اور صوبہ خیبر پختونخواہ شدید غذائی قلت کے حامل صوبوں میں شامل تھے۔
مجموعی طور پر ملک کی 60 فیصد خواتین اور بچوں کو ناکافی خوراک کا سامنا ہے۔ لیکن مرد اس کا شکار نہیں کیا یہ خوراک کی تقسیم میں یہ صنفی بنیاد پر برتی گئی نا انصافی تو نہیں؟
غذائی قلت ناخواندگی سے مزید بڑھتی ہے، خصوصاً خواتین میں۔ ایک جانب تو ملک میں بھوکے پیٹ ہیں تو دوسری جانب کھانے کی بڑی مقدار ضائع کی جاتی ہے۔
سادہ اور یکساں غذائیت ہر ایک کی ضرورت ہے۔ ہسپتال کے مریضوں، بوڑھوں ، نومولود بچوں اور کھلاڑیوں وغیرہ کیلئے تو شاید خاص خوراک درکار ہو لیکن بقیہ ہم جیسے افراد کیلئے وہی پروٹینز، کاربو ہائڈریٹس، چکنائی، وٹامن اور معدنیات وغیرہ کافی ہوتی ہیں جن کے بارے میں سکول میں پڑھایا جاتا ہے۔
پاکستانی خواتین ایک گروپ کے طور پر شدید غذائی کمی کی شکار ہیں۔ امید سے ہونے کی حالت میں اور دودھ پلاتے دوران انہیں خاص خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی خوراک میں فولاد، پروٹین، آئیوڈین، وٹامن اے، اور دیگراشیا ضروری ہوتی ہے۔ خصوصاً مدتِ حمل میں خوراک میں اہم اجزا کی کمی سے پیدا ہونے والے بچے میں نقائص ہوسکتے ہیں اس کی جسمانی اور ذہنی نشونما پر فرق پڑ سکتا ہے۔
نومولود اوربچوں میں خوراک اور غذائیت کی اہمیت کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ( پمز) کے پروفیسر محمود جمال نے کہا کہ پاکستان میں صحت کے بہت سے مسائل کا براہِ راست تعلق والدہ اور نومولود بچے کی خوراک سے ہوتا ہے۔ ' جب ایک ماں بچے کو دودھ پلانا روک دیتی ہے تو وہ (بچہ) مسلسل انفیکشن کا شکار ہونے لگتا ہے۔'
انہوں نے غریب آبادی کے ایک گھر کا واقعہ بیان کیا جہاں چار بچے موجود تھے جن کی پیدائش میں بہت کم وقفہ تھا جو اپنی ماں سمیت خوراک کی شدید کمی کے شکار تھے۔ ان کا رنگ پھیکا تھا اور ماں اپنے ایک نومولود بچے کی زندگی کے بارے میں فکر مند تھی۔
غربت کے مارے لوگوں میں خوراک کی کمی، صحت کی ناکافی سہولیات اور نامناست خاندانی منصوبہ بندی سے پاکستان اقوامِ متحدہ کے تحت وضع کردہ ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز ( ایم ڈی جی) کو حاصل نہیں کرپائے گا۔
غذا کی کمی ہر ایک کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی شدت میں مبتلا بچے الگ سے نظر آتے ہیں۔ وہ سست، کم سرگرم، افسردہ، کمزور ہوتے ہیں۔ ان کی نشوونما پر فرق پڑتا ہے اور پٹھے اور عضلات بھی کمزور ہوتے ہیں۔
مجموعی طور پر ملک کی 60 فیصد خواتین اور بچوں کو ناکافی خوراک کا سامنا ہے۔ لیکن مرد اس کا شکار نہیں کیا یہ خوراک کی تقسیم میں یہ صنفی بنیاد پر برتی گئی نا انصافی تو نہیں؟
اگر خوراک کی کمی مسلسل رہے تو مسوڑھے سوج جاتے ہیں اور دانت گرنے لگتے ہیں۔ اعضا متاثر ہوتے ہیں اور دل کے امراض بھی جنم لیتے ہیں۔ خصوصاً ابتدائی عمر میں خوراک کی کمی سے دماغی بڑھوتری نہیں ہوپاتی اور بچے کا آئی کیو بھی کم ہوسکتا ہے۔ پھر اس کے اثرات پوری زندگی رہتے ہیں اور بلوغت تک کا عرصہ متاثر رہتا ہے۔
کھانے کی کمی سے اور دماغی امراض کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ بائی پولر ڈس آرڈر اور شیزوفرینیا جیسی بیماریوں کا تعلق اومیگا تھری نامی فیٹس کی کمی سے ہے جو مچھلی کے تیل میں پائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب پر تشدد اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنے والے مریضوں کو جب وٹامنز اور دیگر اہم اجزا دیئے گئے تو ان کی صورتحال میں بہتری دیکھی گئ جس سے ظاہر ہے کہ فیٹی ایسڈز اور دیگر معدنیات دماغی اور نفسیاتی بہتری کیلئے کتنی ضروری ہیں۔
پاکستان کی آبادی میں خوراک کی کمی کے خاتمے کیلئے کچھ کم خرچ اور بہتر طریقے بھی موجود ہیں۔ پاکستان خیرات دینے میں بہت سخی ہیں۔ ملک بھر میں ایک بڑی آبادی کو روزانہ مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچن گارڈننگ، ماں کو دودھ پلانے کی ترغیب اور دیگر غذائیت سے بھرپور خوراک کے آپشن اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا اپنا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ چھوٹے ہی سہی لیکن اقدامات اُٹھائے جائیں تاکہ رفتہ رفتہ غذائیت کی کمی پر قابو پایا جاسکے۔