• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:51pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:51pm

چیمپیئنز کا چیمپیئن کون؟

شائع June 5, 2013

آخری فاتح کی منتظر آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی۔

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی اب محض چند دن کی دوری پر ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ شائقین کرکٹ کے جوش و خروش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جہاں ہر ملک اپنی ٹیم کو کرکٹ کے دوسرے سب سے بڑے اور اہم ترین ایونٹ کا فاتح دیکھنے کا خواہشمند ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے 1998ء میں منی ورلڈ کپ کے نام سے شروع کیے گئے اس ٹورنامنٹ کا مقصد کرکٹ کا دیگر ممالک میں فروغ اور کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کے لیے مزید مالی وسائل پیدا کرنا تھا تاہم مینجمنٹ کی غلطیوں، ناقص حکمت عملی اور ٹی ٹوئنٹی کی بڑھتی مقبولیت کے باعث اب تک ہونے والا ایک بھی ٹورنامنٹ شائقین کرکٹ کی خاطر خواہ توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

بالآخر آئی سی سی نے ٹورنامنٹ کی ناکامی، فیوچر ٹور پروگرامز میں ٹیموں کی مصروفیات اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے انعقاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ایونٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور رواں سال انگلینڈ کی سرزمین پر ہونے والے آٹھ ملکی ٹورنامنٹ کو چیمپیئنز ٹرافی کا آخری ایڈیشن قرار دے دیا۔

تاہم اس بار آخری ٹورنامنٹ ہونے کے باعث اس کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے اور شاید یہ چیمپیئنز ٹرافی کی تاریخ کا پہلا ٹورنامنٹ ہے جس میں کوئی ایک ٹیم واضح فیورٹ نہیں ہے۔

اس تمام صورتحال کے باوجود ماہرین کرکٹ ماہرین انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔

انگلش کرکٹر جوناتھن ٹروٹ جو انگلینڈ کی بیٹنگ لائن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

انگلش ٹیم کو فیورٹ قرار دینے کی سب سے بڑی وجہ ہوم گراؤنڈ، کنڈیشنز اور ہوم کراؤڈ کا ایڈوانٹیج ہے جبکہ دوسری جانب تین شیروں کے نام سے مشہور ٹیم کو انتہائی متوازن بھی قرار دیا جا رہا ہے جو ہندوستان کے خلاف کھیلی گئی ایک روزہ میچوں کی سیریز کے علاوہ گزشتہ کچھ عرصے سے انتہائی بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کر رہی ہے تاہم حالیہ ایک روزہ میچز کی سیریز میں  نیوزی لینڈ کے ہاتھوں ٹورنامنٹ سے قبل ناکامی ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

اس ٹورنامنٹ میں انگلش ٹیم کو اپنے اسٹار بلے باز کیون پیٹرسن کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی لیکن اس کے باوجود اس کے پاس بیٹنگ لائن میں کپتان ایلسٹر کک، جوناتھن ٹروٹ، آئن مورگن، این بیل اور روی بوپارہ کی صورت میں تجربہ کار اور بہترین بلے باز موجود ہیں۔

انگلش باؤلنگ یونٹ کو انگلینڈ کی کنڈیشنز میں ٹورنامنٹ کی سب سے متوازن باؤلنگ لائن اپ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا جہاں جیمز اینڈرسن، اسٹیون فن، اسٹورٹ براڈ جیسے فاسٹ باؤلرز کے ساتھ گریم سوان جیسے بہترین اسپنر بھی دکھائی دیتے ہیں جبکہ انہیں ٹم بریسنن اور جیمز ٹریڈ ویل جیسے آل راؤنڈرز کا ساتھ بھی حاصل ہے اور اس تناطر میں انگلش ٹیم انتہائی متوازن دکھائی دیتی ہے۔

جنوبی افریقی بیٹنگ لائن کے ستون کپتان اے بی ڈی ویلیئرز اور ہاشم آملا

ٹورنامنٹ کے آغاز سے چند ماہ قبل جنوبی افریقہ کو ایونٹ کیلیے واضح فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ٹورنامنٹ کے اسکواڈ سے جیک کیلس کی دستبرداری، گریم اسمتھ کی انجری اور پھر گیری کرسٹن کی جانب سے حالیہ سیزن کے اختتام پر ٹیم کی کوچنگ چھوڑنے کے اعلانات منظر عام پر آنے کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سب چیزیں پروٹیز کی کارکردگی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ جنوبی افریقہ کے لیے اپنے چوکر کے لقب سے چھٹکارا پانا بھی کسی چیلنج سے کم نہ ہو گا جہاں متعدد ایونٹ میں بحیثیت فیورٹ شرکت کرنے والی ٹیم اہم موقعوں پر میچز گنواتی ہے لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چوکرز کے نام سے مشہور ٹیم نے اس ایونٹ کے پہلے ایڈیشن کو اپنے نام کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا جو اس کی اب تک ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ان تمام چیزوں کے باوجود جنوبی افریقی ٹیم کو نظر انداز کرنا یقیناً زیادتی ہو گی جو بجا طور پر انگلینڈ کے بعد سب سے زیادہ بہتر دکھائی دے رہی ہے۔

انگلینڈ کی طرح پروٹیز ٹیم بھی اسٹارز سے سجی ہے جس کے پاس بیٹنگ لائن میں صف اول کے بلے باز ہاشم آملا، کپتان اے بی ڈی ویلیئرز، کولن انگرام، ڈیو پلیسی، جے پی ڈومینی اور ڈیوڈ ملر موجود ہیں تو باؤلنگ میں اور ڈیل اسٹین، مورنے مورکل اور رورے کلین ویلڈٹ جیسے ہیوی ویٹ شامل ہیں۔

ٹورنامنٹ کے دوران آل راؤنڈر شین واٹسن کی فارم آسٹریلیا کے انتہائی اہمیت کی حامل ہو گی جنہوں نے گزشتہ ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل اور فائنل میں سنچری جڑتے ہوئے اپنی ٹیم چیمپیئن کا اعزاز دلایا تھا۔

دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا کی جیت کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جس کے پاس ڈیوڈ وارنر، شین واٹسن، مائیکل کلارک، جیسے اسٹار کھلاڑی موجود ہیں جو اس سے قبل تن تنہا اپنی ٹیم کو میچ جتوا کر اپنی صلاحیتیں ثابت کر چکے ہیں جبکہ جارج بیلی، کلنٹ میک کے اور مچل اسٹارک بھی حریف ٹیموں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔

اب تک ہونے والے ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا کو سب سے زیادہ دو مرتبہ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل ہے جہاں اس نے 2006ء اور 2010ء کے ٹورنامنٹ اپنے نام کیے تھے۔

آسٹریلینز کی سب سے بڑی خوبی بڑے میچوں اور ٹورنامنٹس میں شاندار پرفارمنس ہے جس کا وہ اس سے قبل بھی بارہا مظاہرہ کر چکے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو انہیں بقیہ ٹیموں سے ممتاز بناتی ہے۔

آٹھ ملکی ٹورنامنٹ کے لیے ویسٹ انڈیز کو سرپرائز پیکج قرار دیا جا رہا ہے جس کے پندرہ رکنی اسکواڈ میں کرس گیل، کیرون پولارڈ، کپتان ڈیوین براوو، مارلن سیمیولز اور ڈیرن سیمی سمیت سات آل راؤنڈر شامل ہیں جو اپنی جارحانہ بیٹنگ کی بدولت ماضی کی کالی آندھی کو 2012ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں فتح سے ہمکنار کرا چکے ہیں۔

جارحانہ ویسٹ انڈین بلے باز کرس گیل جنہوں نے حال ہی میں ہونے والی انڈین پریمیئر لیگ میں 30 گیندوں پر سنچری بنا کر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا تھا۔

اسی طرح ڈیرن براوو، سروان، چارلس جیسے مستند بلے بازوں اور روی رامپال، کیمار روچ اور اسپنر سنیل نارائن جیسے گیند باز بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے موجود ہوں گے۔

چیمپیئنز ٹرافی کے 2004ء کے ایونٹ کی فاتح ویسٹ انڈیز کی سب سے بڑی کمزوری غیر مستقل مزاجی اور بڑے میچوں میں ناکامی ہے جو چھ جون سے شروع ہونے والے ٹورنامنٹ میں ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم کو ٹورنامنٹ کی سب سے کمزور ٹیم نظر آتی ہے اور گروپ اے میں آسٹریلیا، انگلینڈ اور سری لنکا جیسی ٹیموں کی موجودگی میں ان کی سیمی فائنل تک رسائی بہت مشکل دکھائی دیتی ہے لیکن 2000ء کا منی ورلڈ کپ اپنے نام کرنے والی ٹیم نے ٹورنامنٹ سے قبل انگلینڈ کو ایک روزہ میچز کی سیریز میں شکست دے کر دیگر ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

انگلینڈ کے خلاف حالیہ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں لگاتار دو سنچریاں بنانے والے مارٹن گپٹل کی فارم نیوزی لینڈ کو فتوحات سے ہمکنار کرا سکتی ہے۔

اور اب ایک نظر ایشین ٹیموں پر جہاں کرکٹ ماہرین کے خیال میں تینوں ایشین ٹیموں پاکستان، ہندوستان اور سری لنکا کے ٹورنامنٹ جیتنے کا امکان انتہائی معدوم ہے اور انگلش کنڈیشنز میں ان ٹیموں کی گزشتہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ بات کسی حد تک درست بھی دکھائی دیتی ہے کیونکہ سیمنگ اور تیز وکٹوں پر ایشیائی بلے باز ہمیشہ ہی دشواری کا شکار دکھائی دیے ہیں۔

سابق سری لنکن کپتان اور اسٹار بلے باز کمار سنگاکارا اپنی ٹیم کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس ٹورنامنٹ کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کے انگلینڈ میں موسم سرما کا اختتام ہوا ہے جس کے باعث تقریباً تمام ہی گراؤنڈز پر پچز نم ہونے کے ساتھ باؤلرز کو مدد فراہم کریں گی۔

سری لنکن ٹیم نے گزشتہ چھ سال کے دوران سب سے زیادہ تسلسل سے پرفارمنس پیش کی جہاں اس نے آئی سی سی ٹورنامنٹ کے چار فائنلز اور ایک سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تاہم ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل سری لنکا کے نو منتخب کپتان اینجلو میتھیوز نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ ان کی ٹیم کا اصل مقصد سیمی فائنل تک رسائی ہے اور اس بیان سے آئی لینڈرز کی باڈی لینگویج کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ہندوستانی ٹیم ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اپنی مضبوط بیٹنگ لائن اپ پر انحصار کرے گی جس کے پاس ویرات کوہلی، سریش رائنا، روہت شرما اور کپتان مہندرا سنگھ دھونی جیسے میچ ونرز موجود ہیں۔

ہندوستانی کپتان مہندرا سنگھ دھونی جن کی لاجواب بیٹنگ اور بہترین قائدانہ صلاحیت انڈیا کو ایک اور آئی سی سی ٹورنامنٹ میں فتح سے ہمکنار کرا سکتی ہے۔

لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ہمیشہ سے ورلڈ کلاس بلے بازوں سے سجی ہندوستانی بیٹنگ لائن اپ کو بھی انگلینڈ میں اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور شاید اس بار بھی آئی پی ایل کے باعث تھکی ماندی ٹیم کی کارکردگی ماضی سے زیادہ مختلف نہ ہو۔

آخر میں ایک نظر پاکستان کرکٹ ٹیم پر جس کے بارے میں کرکٹ پنڈت اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اب تک انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستان کی کمزور ترین ٹیم ہے جسے کھیل کے کسی بھی شعبے میں مضبوط قرار نہیں دیا جا سکتا۔

باؤلنگ پاکستان کا ہمیشہ سے سب سے مہلک ہتھیار ثابت ہوا ہے لیکن موجودہ ٹورنامنٹ کے لیے اعلان کردہ اسکواڈ میں شامل فاسٹ باؤلر کم تجربہ کار ہیں جہاں سب سے زیادہ تجربہ کار گیند باز وہاب ریاض نظر آتے ہیں جنہوں نے 29 میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ جنید خان نے 24 اور عرفان نے گیارہ بار گرین شرٹس زیب تن کی، اسی طرح اسکواڈ میں شامل دیگر دو باؤلر اسد علی اور احسان عادل بالترتیب ایک اور دو میچوں میں قومی ٹیم کی فائنل الیون میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکے۔

باؤلنگ میں پاکستان کا مثبت پہلو مضبوط اسپن ڈپارٹمنٹ ہے جسے سعید اجمل، محمد حفیظ اور عبدالرحمان نے سنبھال رکھا ہے تاہم انگلش کنڈیشنز میں شاید یہ اتنے خطرناک ثابت نہ ہو سکیں۔

پاکستانی بیٹنگ کا تمام تر بوجھ مصباح کے مضبوط کاندھوں پر ہو گا۔

بیٹنگ ہمیشہ سے ہی پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ رہی ہے تاہم حالیہ ٹیم میں مڈل آرڈر میں صرف اسد شفیق اور کپتان مصباح کی صورت میں تسلسل سے کھیلنے والے محض دو بلے بازوں کی موجودگی صورتحال کی ابتری کی بخوبی نشاندہی کر رہی ہے جبکہ اسکواڈ میں کامران اکمل سمیت چار اوپنرز کی شمولیت بھی کسی معمے سے کم نہیں۔

اس پندرہ رکنی اسکواڈ کی سب سے بڑی خامی محمد حفیظ کے سوا کسی اور آل راؤنڈر کی غیر موجودگی ہے حالانکہ گزشتہ دو دہائیوں سے قومی ٹیم لوئر مڈل آرڈر میں عبدالرزاق، شاہد خان آفریدی اور اس سے قبل دیگر آل راؤنڈرز پر انحصار کرتی رہی ہے جنہوں نے اپنے کردار سے بخوبی انصاف کرتے ہوئے ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود نچلے نمبروں پر کسی بھی آل راؤنڈر کی غیر موجودگی کا پاکستان کو انتہائی بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

حقیقتاً کاغذ پر قومی ٹیم انتہائی کمزور دکھائی دیتی ہے اور اس لحاظ سے اسے ٹائٹل اپنے نام کرنے کے لیے اہلیت سے بڑھ کر کارکردگی دکھانا ہو گی۔

نتیجہ چاہے جو بھی ہو لیکن ایک بات تو طے ہے کہ شائقین کرکٹ کو چھ جون سے 23 جون تک کرکٹ کے کچھ شاندار اور ناقابل فراموش مقابلے دیکھنے کو ملیں گے اور جو ٹیم بھی ٹورنامنٹ کی فاتح ہو گی وہ یقیناً کرکٹ کی تاریخ میں چیمپیئنز ٹرافی کے آخری ایونٹ کے فاتح کی حیثیت سے امر ہو جائے گی۔

کارٹون

کارٹون : 28 اپریل 2025
کارٹون : 27 اپریل 2025