...سب کا شکریہ
اگر جمہوریت فقط ایک دن چھٹی کر کے صرف اپنے پسندیدہ یا مجبور و لاچار کسی ایک بندے کو اپنی نمائندگی کا اختیار تھما دینے کا نام ہے تو چلو ھم سب سر نگوں ھو کر ان تمام پوشیدہ و پیچیدہ قوتوں کو سلام کیئے دیتے ھیں جنھوں نے بظاہر کسی مداخلت کے بغیر گیارہ مئی ہمارے لیئے ممکن بنائی اور جمہوریت کی جیت ھوئی۔
چلو ایک سلامی اس منصفِ اعلیٰ کو بھی جس نے زہر کے گھونٹ پیتی جمہوریت کے پچھلے پانچ سالوں میں گھٹنوں کے بل گھسیٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے ھوئے بھی بلآخر قوم کو اس نویدِمسرت کی سعادت بخشنے میں اعلیٰ ظرفی کا مظاھرہِ اخلاق کیا۔
چلو، یہ کہہ کر منہ کڑوا نہیں کرتے کہ کس کس طرح اس اعلیٰ ظرفی کے اختتامیے تک اس ایوان کی توہین کا سامان پیدا کرنے کے لیے کس حد تک آگے نہیں گئے کہ عوام کے منتخب کردہ وزیرِ اعظم کو ہتھکڑیاں پہنانے کے لیے دستے تیار کیئے۔
گر اڈیالہ نہ بھیج سکے تو بھی ملتان واپسی کا ٹکٹ دکھا کر ہی کلیجہ ا ٹھنڈا کیا۔ یہ الگ بات کہ اس ہی منصفی کی روایت کہ ایک طرف جمہموری نمائندگان کی رسوائی کا سامان یوں تیار ھوا تو دوسری جانب بغیر وردی و عہدہ، نہ چھڑی نہ چابکدست دستہ ھمراہ مگر وہ صاحب ایوانِ عدالت سے یوں رخصت ھوئے کہ گویا اکیس توپوں کی سلامی ھو
یہ بھی خلقِ خدا دیکھے گی کہ اب اس ملک سے اس کی رخصتی کس شان سے ہوتی ہے اور اس وقت اک لمحے کے لیئے اپنی یاداشت کو تھوڑا سا آزمایئے گا اورعوام کے ہیوی مینڈیٹ کے ھاتھوں میں ھتھکڑیاں ڈال کر طیارے کی سیٹ سے باندھنے والی رخصتی کی یاد دل میں دھرایئے گا۔
عین اس وقت "جھموریت بھترین انتقام ھے" جیسا کوئی اور تاریخی جملہ ھمارے سویلین سربراہ کے ھونٹوں پہ اگر سن بھی لیں تو پھر سے کولونیئل پیرئڈ کی اسی دعا کو کہ "ملکہ برطانیہ کی حیات دراز ھو" چونکہ یہ قوم مملکت آزاد ھونے کے مغالطے میں مبتلا ھے تو تھوڑی سی ترمیم اس طرح کہ "بلند اقبال ھو والیانِ حرمین شریف کا کہ بات اب تک بنی ھوئی ھے" ضرور اس دعا کو دھرائیے گا۔
اس میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں ھونی چاھیئے کہ اپنے ڈارلنگ جنرل کا طیارہ انکو شرفِ عمرہ عطا کرنے کے لیئے سیدھا حرمین شریف کی طرف رخ کردے۔ بھائی، جس کے لیئے کعبتہ اللہ شریف کے دروازے پانچ کہ آٹھ مرتبہ کھلے ھوں ان کے نصیب اور قربتِ الٰہی پر آپ کو حسد کیونکر ھے۔
اور اس گناھوں کی پوٹلی ھمارے زرداری کا میاں صاحب کی صاحبی سے بھی کیا مقابلہ کہ آخر کو وہ بھی تو شرفین کے شرف سے ابھی تک شریف بنے ھوئے ھیں کہ عین جوانی میں اس در پہ آن پڑے جو بلاشبہ رحمتوں اور برکتوں سے لبریز ھے۔
صلہ میزبانی میں میاں صاحب تو اکیس توبوں کی سلامی کی حد تک پار کر سکتے ھیں، ان کی روحانی اولاد طالبان کو فرشی سلام کر سکتے ھیں۔ مگر قلبِ سعود کی کشادگی کو یوں انڈر اسٹمیٹ کرنا غلط ھوگا کہ گلبدین حکمتِ یار کے دور کے یارانے کے طفیل آج کل آپ کے لیئے یہ تھوڑے سے سرکش بنے طالبان بھی اسی در کی حاضری دیتے ھیں۔
آپ بلاشبہ کہہ دیجئے کہ جناب والیانِ سعود کا در وہ در کہ شاہ و گدا دونوں ھی فیض پاتے ھیں۔ پتہ نہیں کیوں بحرین میں کچھ شیعہ سرکشوں کی شورش میں ھمارے زدراری؛ مفاھمت کی بدولت ایران کی مداخلت سے سعود کی مصیبت ٹالنے کی کامیاب کوشش کے باوجود اپنے لیئے کوئی نرم گوشہ نہ پا سکے۔ ورنہ تو دونوں امریکی پسر و فرزند بشوں کے لیئے بھی آقائے سعود کا یارانہ تو کھلے معاشقے کی مانند عام و خاص کی زبان پہ عام تھا۔
نہ صرف یہ بلکہ خبر یہ بھی گرم کہ ڈرون کی اڑان بھی انھیں بیڑوں کے طفیل جن کے لنگر انہی سرحدوں کے پانیوں پہ جن کی گرد میں خاک ہونے کی تمنا ھر کلمہ گو کے شعور و لاشعور پہ راج کرتی ہے۔
معاف کیجیے گا، بات جمہوریت سے شروع کرکے پاک پانیوں پہ ختم کرنا ذرا معیوب سا لگے گا۔ تو پانچ سالوں کا سفر کرتی یہ جمہوریت بہتریں انتقام بنتے ھوئے بلآخر کامیاب پائی۔
گر جمہوریت ایک دن میں ووٹ دے کر اپنا حقِ نمائندگی دے کر کسی کو ایوان میں بھیجنے کا کام ھے تو ھم کامیاب ٹھہرے اور پچھلی حکومت باوجود اپنی کوتاھیوں کے، سپاھِ پاکستان باوجود اپنی پیچیدہ و پوشیدہ ستمگیریوں کے اور منصفِ اعلیٰ کے منصبی؛ ایوان عام سے اپنی تمام تر کلفتوں کے باوجود اسکا بوریہ بستر لپٹنے کی خواھش سے باز رھے۔
آپ تمام اعلیٰ منصبوں کا شکریہ کہ ایک میڈیا چینل کی بریکنگ نیوز میں آپ نے کسی ایک جماعت کو نہیں پاکستان کو جتوایا۔ پاکستان کی جیت اھل وطن کو مبارک سب کی دیکھا دیکھی بابو بیڑی والے کی طرف سے بھی یہ نوید آئی، اس لیئے دل چھوٹا کیئے بغیر تمام جیتنے والوں کو ھم بھی مبارکباد دیئے دیتے ھیں۔
جیتنے والے امیدواروں سے جمہوریت بھی جیتی تو پاکستان بھی جیت گیا، شیر کا پاکستان جیت گیا، بلے کا پاکستان جیت گیا، اور کہیں تیر تو کہیں پتنگ و کتاب کا پاکستان بھی جیت گیا۔ بدھائی ھو سب کو کہ سب جیتے ھیں۔ اب نیا پاکستان بن رھا ھے، تبدیلی بھی آگئی ھے اور جمہوریت کا انتقام بھی پورا ھوا چاھتا ھے۔
لے دے کے اس جمہوریت میں تو وہی افتادگانِ خاک ہارے ھیں کہ بلآخر اس جمہوریت نے اس خلق کے پاکستان کو ہرا ہی دیا جنکے تن پہ پورے لباس کا کپڑا آج بھی ایک خواب ھے جس کی اکثریت بے سائباں کسی سڑک کنارے سونے پہ مجبور، اپنی پوری حیاتِ انسانی گروی رکھنے کے عیوض جبری غلامی میں زندگی گالی کی طرح کاٹنے پہ مجبور ھے۔ مکان تو کیا پانی پینے کے مٹی کے برتن پہ بھی جس کی مالکی کا اختیار نہ ہو، گھر تو کیا کوئی انکی قبرستان میں بنی دو گز کی زمین کا مالک بھی کوئی اور ہو۔
اہلِ وطن کو یہ جیت مبارک کہ پاکستان جیت گیا اور اکثریت وطن کا، افتادگانِ خاک کا، جبری غلامی پہ مجبور خلق کا روٹی، کپڑے اور مکان کا خواب اس جمہوریت میں بھی ہار گیا۔
امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔