جمہوری تسلسل کا تاریخ ساز اجلاس یکم جون کو
اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری نے منگل کو عام انتخابات کے دوران کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کو نشستیں دینے کے لیے یکم جون کو اجلاس طلب کرلیا ہے۔
اس حوالے سے متعدد تاریخی سنگ میل حاصل ہونے جارہے ہیں۔ پہلے تو پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں نواز شریف جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔
پاکستان کے عام انتخابات کو اس لیے بھی تاریخی قرار دیا جارہا ہے کہ اس ملک نے اپنی نصف زندگی ڈکٹیٹرشپ کے تحت گزاری ہے۔
ہفتے کو ہونے والا یہ اجلاس صبح دس بجے کی حلف برداری کی تقریب سے شروع ہوگا۔ اس اجلاس کو نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسہ کی تجویز پر بلایا جارہا ہے۔ اجلاس کے بعد 342 نشستوں والی اس اسمبلی میں پانچ سالہ نئے جمہوری دور کا آغاز ہوجائے گا جو کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ہونے جارہا ہے۔
تاہم پچھلی حکومت کے برعکس اس مرتبہ ن لیگ کو اسمبلی میں واضح برتری حاصل ہوگئی۔ اس کے باوجود کچھ چھوٹی جماعتوں کے ساتھ حکومت سازی پر مشاورت جاری ہے۔ زرداری حکومت کی طرح اس حکومت کو اکثر اوقات ناقابل اعتبار اتحادی جماعتوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس حوالے سے مزید تفصیلات بتائے بغیر نیشنل اسمبلی سیکریٹریٹ نے کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق، 16 مارچ کو اسمبلیاں تحلیل ہونے کے باوجود گزشتہ اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نو منتخب اراکین سے حلف لیں گی۔
تاہم نگراں حکومت کے وزیر اطلاعات عارف نظامی کے مطابق، اسمبلی تین جون کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کرے گی جبکہ پانچ جون کو وزیراعظم کا چناؤ کیا جائے گا اس اسی کے ساتھ نگراں سیٹ اپ ختم ہوجائے گا۔
وزیراعظم کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز نے میاں محمد نواز شریف کو نامزد کیا ہے۔ ن لیگ کی بھاری اکثریت کے باعث یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے جارہے ہیں اور ایسا کرنے والے وہ پہلے پاکستانی ہوں گے۔
پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو ایسا کرنے والی شاید پہلی پاکستانی ہوتیں تاہم 27 دسمبر 2007 کے حملے کے دوران انہیں ہلاک کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2008ء کے الیکشنز کے دوران بے نظیر بھٹو کی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔
پارٹی کے شریک چئرمین نے وزیراعظم کی کرسی یوسف رضا گیلانی کے حوالے کردی تھی جو انکی اہلیہ کو ملتی اگر وہ حیات ہوتیں۔
اقتدار کی پرامن منتقلی جسے پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں دیکھا نہیں گیا، اسلام آباد میں وہ ڈرامہ دیکھنے میں نہیں آیا جو 2008ء کے انتخابات کے بعد دیکھنے میں آیا تھا۔ تب بال زرداری صاحب کے کورٹ میں تھی جنہوں نے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے متعدد اجلاس طلب کیے اور ن لیگ سمیت متعدد پارٹیوں سے مشاورت بھی کی۔
ن لیگ کئی ماہ تک پی پی پی حکومت کا حصہ رہی جبکہ پیپلز پارٹی تین سال تک پنجاب حکومت میں شامل رہی۔
اس مرتبہ حالیہ دنوں سے قبل ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ شریف صاحب رائیونڈ کے اپنے آلیشان گھر سے تمام منصوبہ بندیاں کررہے ہیں جبکہ پی پی پی کو اس مرحلے سے باہر رکھا جارہا ہے جسے پاکستان کے تین صوبوں، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شکست ہوئی ہے تاہم وہ سندھ میں اپنی برتری برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
جبکہ پی پی پی اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں کی بدولت ابھی بھی قائد حزب اختلاف کے منصب کے لیے مضبوط امیدوار ہے۔
اب اگر بات کی جائے عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کی تو اس کی شاندار کارکردگی کا نتیجہ یہ ہے اس ملک میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹوں سے نوازا گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں اسکی نشستوں کی تعداد تیسرے نمبر پر ہے۔
الیکشن مہم کے دوران زخمی ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت اچھے انداز میں کی جبکہ پی ٹی آئی اس وقت خیبر پختونخواہ میں حکومت سازی کی پوزیشن میں ہے۔
اس سے قبل کے اس مرتبہ کے الیکشنز کے فاتح اسلام آباد پہنچ پاتے، صدر زرداری نے کراچی میں اپنے گھر میں الیکشن ہارنے کی وجہ معلوم کرنے کو زیادہ اہمیت دی۔
لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگوں کا غصہ، لبرل جماعتوں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے خطرات اور مہنگائی جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔ ملاقات میں اس بات پر بھی بحث کی گئی کے صوبوں کی خود مختاری بڑھانے اور صدر کے اختیارات کم کرنے جیسے اقدامات کے باوجود عوام نے انہیں کیوں مسترد کردیا۔
تاہم نئے وزیراعظم کی حلف برداری کے لیے صدر کو اسلام آباد میں رکنا پڑے گا جس میں اس شخص کو وزیراعظم بنایا جائے جسکے بارے میں زرداری صاحب نے نوڈیرو میں 21 جون 2011ء کو اپنی ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ "سیاست ہم سے سیکھیں" جبکہ انہوں نے میاں صاحب پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے پیرو کار رہ چکے ہیں۔