• KHI: Fajr 5:17am Sunrise 6:33am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:54am Sunrise 6:18am
  • KHI: Fajr 5:17am Sunrise 6:33am
  • LHR: Fajr 4:49am Sunrise 6:10am
  • ISB: Fajr 4:54am Sunrise 6:18am

!بخشو بی بلّی

شائع May 29, 2013

السٹریشن --.
السٹریشن --.

کہتے ہیں کہ حکیم لقمان کے پاس دنیا کی ہر بیماری کا علاج موجود تھا لیکن وہ پھر بھی وہم کا علاج نہیں کر سکے۔ اگر آج حکیم صاحب حیات ہوتے تو ہم ان سے موجودہ دور کے لاعلاج مرض کا علاج دریافت کرتے اور شاید وہ اس مرض کا بھی کوئی علاج نہ بتا پاتے۔

آج کے دور کا لاعلاج مرض مذہبی تعصب اور تنگ نظری ہے اور اس بیماری کا علاج فی الحال کسی کے پاس نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم پر لبرل انتہا پسند ہونے کی  تہمت لگائی جائے، ایک واقعہ سن لیجیے اور اس کی روشنی میں خود ہی فیصلہ کریں۔

1999 میں ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی جب تاریخی دورے پر لاہور آئے تو انہوں نے مینار پاکستان کا بھی دورہ کیا اور کہا کہ ہم ہندوستان کی تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں اور دونوں ملکوں کی ترقی کے لیے بہتر یہی ہے کہ اب دشمنی کی روش بھلا کر امن کے لیے کام کیا جائے۔

ذرائع کے مطابق اس دور میں کشمیر کے مسئلے پر جتنی پیش رفت ہوئی اتنی آج تک نہیں ہو سکی۔ واجپائی صاحب تو واپس چلے گئے لیکن ایک جماعت کے جوشیلے ارکان نے مینار پاکستان کو پانی سے دھویا تاکہ اس کو "پاک" کیا جائے۔

اس قسم کی بیہودہ حرکت صرف ایک ہی جماعت کر سکتی تھی، وہ جماعت جو پاکستان کی تشکیل کے سخت خلاف تھی اور جس کے امیر صاحب "قومی ریاست" (Nation State) کے تصور سے ہی نالاں تھے۔

ایک زمانے میں تو امیر صاحب کا لاہور کی امریکی قونصل گاہ سے براہ راست رابطہ بھی تھا۔

جی ہاں، سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔

ہمارے دوست علی آفتاب نے دو سال قبل اپنے گانے میں دو جماعتوں کی مناسبت کی طرف اشارہ کیا تھا، اور حالیہ واقعات نے ان کی پیش گوئی کو درست ثابت کیا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں صرف ظاہری حلیے کا فرق ہے، نظریاتی طور پر ان جماعتوں کا قبلہ ایک ہی ہے۔

بےغیرت بریگیڈ کے گانے 'آلو انڈے' کا ایک منظر --.

دیکھا جائے تو نظریات کے علاوہ افراد میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنا سیاسی سفر جماعت کے ذریعے شروع کیا، جیسے عارف علوی یا جاوید ہاشمی صاحب۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت بناتے وقت تحریک اور جماعت کا اتحاد اس بات کا ثبوت ہے کہ علی آفتاب کی بات درست تھی۔

یعنی کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھی۔ بات یہیں تک رہتی تو گوارا تھی لیکن جماعت کو وزارت تعلیم کا قلم دان دے کر تحریک انصاف نے عربی حکایت کے مطابق اونٹ کو خیمے میں گھسنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس موقعے پر جماعت اور تحریک انصاف کے تعلیم سے متعلق خیالات پر نظر ڈالنا وقت کا تقاضا ہے۔

جماعت اسلامی کے منشور میں تعلیم کے متعلق یہ سات نکاتی لائحہ عمل موجود ہے؛

1. ہم ملک میں نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ اسلامی نظام تعلیم نافذ کریں گے اور مستقل قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے سرکاری و پرائیوٹ اداروں کے لیے یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا اور انٹرمیڈیٹ تک دینی و دنیاوی تعلیم کے امتزاج سے ایسا نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے گا جس کے تحت قرآن و حدیث کی تعلیم ہر طالب علم کے لیے لازمی ہو۔

2. اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے ساتھ ساتھ تمام صوبائی اور علاقائی زبانوں کو ترقی کے بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

3. فنی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

4. اعلی پیشہ ورانہ تعلیم کے اداروں میں غریب گھرانوں کے میرٹ پر آنے والے طلبہ و طالبات کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔

5. پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی مکمل حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

6. شرح خواندگی کو 5 سال میں سو فیصد کریں گے۔

7. ایسی پالیسی بنائی جائے گی جس کے تحت ہر استاد رٹائیرمنٹ کے بعد ذاتی مکان کا مالک ہو۔

8. طلبہ یونینز بحال کی جائیں گی۔

تحریک انصاف کی چھے نکاتی تعلیمی پالیسی ملاحضہ کریں:

1. ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے گی۔ انگریز کے نظام تعلیم سے چھٹکارا پایا جائے گا۔

2. یکساں نظام تعلیم نافذ کیا جائے گا۔

3. اردو یا مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے گا۔

4. پرائمری تعلیم کو مضبوط بنا کر ضلعی سطح پر اختیارات دیے جائیں گے۔

5. بجٹ کا پانچ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔

6. تعلیم بالغاں اور تعلیم نسواں پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ ملک بھر میں ہر یونین کونسل میں ایک گرلز سکول قائم کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ تحریک انصاف قائد اور اقبال کے نظریات کی روشنی میں ایک اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ (واضح رہے کہ یہ تمام معلومات حرف بہ حرف اصل سے نقل کی گئی ہیں، یہ ہماری اپنی ایجاد نہیں ہیں)

ظاہری مطالعے پر تو دونوں تحاریر میں کوئی خاص فرق نہیں اور کوئی قابل اعتراض بات بھی نہیں۔ اگر دونوں جماعتیں نظریاتی بحث کا حوالہ حذف کر دیں تو ایک قابل قدر تعلیمی پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں یہ نظریاتی بحث اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ اسکے بغیر اب انکا گزارا ہی نہیں ہوتا اور یہیں سے ہمارے اور اُن کے راستے جدا ہو جاتے ہیں۔

غضب خدا کا، وہ جماعت جو پاکستان کا وجود تک تسلیم کرنے سے گریزاں تھی، آج اسی ملک کے نام نہاد نظریے کی ٹھیکے دار بنی بیٹھی ہے! یہ جماعت طلبہ یونین بحال کرنا چاہتی ہے لیکن اسکی زیر سایہ طلبہ کی جمیعت نے جس طرح ارض پاک کی درس گاہوں کو خون سے رنگا، وہ ہمیں ابھی تک یاد ہے۔

جماعت کے روحانی وارث، طالبان تو خواتین کی درس گاہیں بارود سے اڑاتے پھرتے ہیں اور تحریک انصاف والے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ جماعت خیبر پختونخواہ میں تعلیم نسواں کو فروغ دے گی؟ کیا اسے کھلا تضاد کہا جائے یا جہالت کا اعلیٰ نمونہ؟

اگلے روز خبر آئی کہ تحریک انصاف والے ڈاکٹر عطاالرحمان کو خیبر پختونخواہ میں شعبہء تعلیم کا مشیر بننے کی پیشکش کر رہی ہے۔

سیانے کہتے تھے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب کی علمیت پر ہم سوال نہیں اٹھا سکتے لیکن یہ امر فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے دور میں پاکستان میں پی ایچ ڈی (PhD) افراد کی تعداد میں پریشان کن اضافہ دیکھنے کو ملا اور ان میں سے شائد ہی کوئی ڈگری کسی نئی سائنسی ایجاد یا نظریے کا محرک بنی ہو۔ کم از کم پچاس ڈگریاں تو صرف رائے بریلی سے تعلق رکھنے والی ایک مشہور مذہبی شخصیت پر ہیں۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب کے سیاسی خیالات بھی پریشان کن ہیں۔ پچھلے سال ایک اداریے میں جناب نے لکھا تھا کہ پاکستان کے لیے صدارتی نظام حکومت زیادہ موثر رہے گا اور جب تک ایسا نظام رائج نہیں ہوتا، یہاں ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کی جانی چاہیے کیونکہ موجودہ سیاست دان جاہل اور نااہل ہیں۔

ان کے خیال میں جج صاحبان پر مشتمل ایک ایسا بندوبست ہونا چاہیے جو ملک کے اعلی عہدوں پر فائض افراد کی چھانٹی کرے۔ یاد رہے کہ ایسے نظام ایران اور سنگا پور جیسے ممالک میں تو آزمائے جا چکے ہیں لیکن کسی حقیقی جمہوری ملک میں ان اقدام کی کوئی جگہ نہیں۔

اگر یہی کچھ خیبر پختونخواہ کی تعلیم کا سامان ہے تو بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔۔۔


majeed abid 80 عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

Shan Ahmed May 29, 2013 06:24am
After reading carefully, I found the above article full of biasness. Let them do what they want to do, please don’t shout before the marathon start.
Anwar Ahmad May 29, 2013 09:02am
اگلا مرحلہ شائد تحریک طالبان کو دفاع، لشکر جھنگوی کو داخلہ، لشکر طیبہ کو خزانے کامحکمہ سونپنا ہے پھر پاکستانی پورے کا پورا ایک نظریاتی ریاست بن جائے گا.
Anwar Ahmad May 29, 2013 09:17am
اس میں bias والی کونسی بات نظر آئی آپ کو. یہ ضروری تو نہیں کہ آگ میں ہاتھ ڈال کر ہی دیکھا جائے کہ وہ جلاتی ہے یا نہیں. کیا آپ کے خیال میں جماعت کے نظریات میں کوئی تبدیلی آ گئی ہے؟ ضیاع الحق کے دور میں بھی انکے یہی نظریات تھے جب انہوں نے اس کے پروں کے نیچے رہ کر نظام تعلیم کو تعصب سے بھر دیا، آئین و قانون میں من مانی تبدیلیاں کروائیں، پولیس و فوج کے ذہنوں کو مسموم کیا اور آج ہم انکے زہریلے پھلوں کے ہاتھوں اپنی نسلوں کو مروا رہے ہیں.
Jamshaid May 29, 2013 02:17pm
So, this article is saying that they (PTI and JI) are not eligible for any kind governance by just looking at their background. But then what is our alternate especially in PKK by looking at past 5 year’s progress of last ruling parties in this province? I will say the writer of this article needs training in critical thinking or he need to re-read the history of Pakistan and World by wearing glasses of critical thinking.
Darvesh Khurasani May 29, 2013 04:08pm
کلتے رہو حسد کی اگ میں۔
adnan May 29, 2013 07:49pm
مجھے سخت افسوس ہے کہ میں نے پورا بلاگ پڑھنے میں اپنا وقت ضائع کیا۔
perfect2shahbaz May 30, 2013 11:35am
کیا ہم نے بھارت سے آزاد کشمیر کا علاقہ مذاکرات کے ذریعے حاصل کیا تھا . اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدلقدیر خان ، عمران خان ، اور جماعت اسلامی پاکستان اور پاکستان کے مفاد کے لئے اکٹھے کھڑئے ہیں . جس پر "سیفما اور نواذ" کے ہاتھوں ہمارا بقاو میڈیا تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو انتہا پسند ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے . پاکستان آزاد ہونے کے بعد قائداعظم کی خواہش پر ہمارئے بہادر قبائلی کشمیر میں جہاد کے لئے گئے اور پھر ہندوستان سے کشمیر کا ایک بڑا حصہ الگ کیا . طالبان کے ساتھ ہمارئے قبائلی بھی ماضی کی پاکستانی حکومت اور امریکیوں اور سعودی عرب کی خواہش پر روس کے خلاف افغانستان میں لڑئے تھے . اب چونکہ عمران خان کو پنجاب سے پی ایم ایل این نے اور جماعت اسلامی کو کراچی سے ایم کیو ایم نے دھاندلی کے ذریعے ہرا دیا ہے تو ہمارا میڈیا بھی "بہتی گنگا" کے ساتھ اپنا رخ بدل رہا ہے . اب بجائے ہمارا میڈیا اس کے وہ نواذ شریف کو یہ باور کروائیں کہ آپ ڈرون گراو ، جیسے ایران نے امریکی ایسلتھ ٹیکنالوجی والا ڈرون گرایا تھا اور پھر ویسے ہی ڈرونز بنا بھی لئے . اگر "ڈان نیوذ" والئے پاکستنی آئین میں موجود اظہار رائے کی شق کو نہیں مانتے تو اس کمنٹ کو ڈلیٹ کردیں .
Anwar Ahmad May 31, 2013 08:09am
نہیں برادر نہ تو یہ حسد کی آگ ہے اور نہ ہی جلنا. یہ تو ایک دکھ کی کیفیت ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں اس کا مداوا ہماری آنے والی نسلیں بھی نہ کر سکیں گی. آپ شائد ابھی اس آگ کی تپش کو محسوس نہیں کر سکتے کہ اس کے لئے آنے والے وقت کے ادراک کا شعور ہونا چاہئے.
Anwar Ahmad May 31, 2013 08:21am
کچھ وقت تاریخ کے مطالعے میں بھی صرف کر لیا کریں. آپکے بہادر جنگجو قبائلی بھائیوں نے کشمیر میں یلغار (جسے آپ جہاد کہنےپر مصر ہیں) قائد آعظم کے حکم پر نہیں کی تھی. اور اس یلغار کے دوران جو کچھ انہوں نے مفتوحہ علاقوں کے ساتھ کیا وہ وہی کچھ تھا جو تاتاریوں نے کیا. یہ بھی تحریر شدہ تاریخ کا حصہ ہے. میڈیا کو تو سچ لکھنے کی سزا ہمیشہ بکاؤ کے الزام پر منتج ہوتی ہے. اب مجھے آپ یہود و ہنود کا ایجنٹ کہہ لیجئے لیکن یاد رکھیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہی زندہ قوموں کا وطیرہ ہے. باقی رہا آج کی سیاست کا معاملہ تو کچھ وقت گزرنے دیں وقت کا تتا پانی چائے کی پتی کا اصلی رنگ جلد ہی دکھا دے گا.

کارٹون

کارٹون : 20 اکتوبر 2024
کارٹون : 19 اکتوبر 2024