شکاگو --- الوداع

شائع May 28, 2013

شکاگو بوٹانیکل گارڈن -- تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
شکاگو بوٹانیکل گارڈن -- تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز --.

شکاگو میں تقریبا نو مہینے قیام کے بعد میرا واپسی کا سفر شروع ہونے میں تقریبا ہفتہ بھر رہ گیا ہے- ستمبر سے لیکر مئی تک میں نے یہاں کے تین موسم دیکھے اور ان کا بھرپور لطف اٹھایا-

ستمبر میں یہاں پہنچی تو درختوں پر خزاں کے رنگوں کی بہار تھی- خزاں کے رنگ دیکھنے ہوں تو سرد علاقوں کا رخ کیجئے- ہر رنگ اور شیڈز کے پتے اپنی "بہار" دکھا رہے ہوتے ہیں- پھول البتہ نظر نہیں آتے لیکن ان کی کمی رنگ برنگ پتے پوری کردیتے ہیں-

پھر آہستہ آہستہ پتے گرنے لگتے ہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے منوں ٹنوں پتے زمیں بوس نظر آتے ہیں- گھروں کے اندر صفائی تو خیر گھر والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن اگر آپ اپنے الگ الگ مکانوں میں رہ رہے ہیں تو آپ کے گھر کے سامنے درختوں سے جو پتے گرینگے ان کی صفائی آپ کی ذمہ داری ہے- چنانچہ سنیچر اور اتوار کے دن گھر کے لوگ (زیادہ تر مرد حضرات) پتے سمیٹتے دکھائی دیتے ہیں-

اس کیلئے مخصوص مشینیں استعمال ہوتی ہیں- بعض لوگ یہ کام اُجرت دیکر کروالیتے ہیں- لیکن عموماً خود کام کرنے کا رواج ہے- البتہ اگر آپ اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں یا کسی کمپاؤنڈ میں تو پھر وہاں کی انتظامیہ اس کی ذمہ دار ہوتی ہے- میں نے لوگوں کو بوریاں بھر بھر کر پتے سڑک کے کنارے رکھتے دیکھا جسے صفائی کی انتظامیہ ہر ہفتے اٹھاکر لیجاتی ہے-

یہی حال سردیوں میں ہوتا ہے- شکاگو میں تو کئی کئی انچ برف پڑتی ہے تو پھر اس زمانے میں لوگ برف کی صفائی میں جتے رہتے ہیں- سڑکوں کی صفائی البتہ شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور اس زمانے میں سڑکوں کے دونوں طرف برف کے چھوٹے بڑے ٹیلے دکھائی دیتے ہیں.

چند دنوں تک یہ سفید سفید پہاڑ، درختوں اور ٹہنیوں پر پڑی ہوئی برف بڑی خوبصورت لگتی ہے لیکن جیسے جیسے برف پگھلتی ہے پھریہ پہاڑیاں بھی گرد آلود ہونے لگتی ہیں.

خزاں کے رنگوں کے بکھر جانے کے بعد سفید یا سرمئی رنگ ان کی جگہ لےلیتے ہیں- ٹنڈ منڈ درختوں کو دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ یہ کبھی سر سبز نہ ہونگے لیکن ادھر جاڑے ختم ہوئے درختوں نے بھی انگڑائی لی- لگتا ہے نیند سے بیدار ہوگئے ہیں- مئی کا مہینہ شروع ہوا تو دھوپ اور بارش نے ملکر درختوں میں جان ڈال دی اور اب ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے- زمردیں لان، ہرے بھرے درخت، طرح طرح کے رنگ برنگے پھول اعلان جیسے اعلان کرتے ہیں کہ بہار آچکی ہے!

اس بار چونکہ میرا قیام خاصا طویل تھا اس لئے امریکی طرز زندگی کے مختلف پہلوؤں کو دیکھنے کا موقع ملا- ستمبر میں جب یہاں پہنچی تو وہاں پاکستان میں امریکی مخالف جذبات نمایاں تھے- اور کچھ خدشہ بھی تھا کہ نجانے ائرپورٹ پر کس عمل سے گزرنا ہوگا لیکن یہ مرحلہ بھی بخوبی طے ہو گیا-

سیاسی مخالفت کو ظاہر کرنے کا ہمارے ملک میں خاص انداز ہے- مخاصمت یا مخالفت خواہ ملک کے اندر کی سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہو یا بیرونی عناصر کے خلاف ہم اپنے جذبات کے اظہار میں انتہا پسندی پر اتر آتے ہیں- کسی نے ہمیں کچھ کہہ دیا، ہمارے خلاف کچھ کردیا، ہمارا کلچر جلاؤ اور گھیراؤ کا ہوکر رہ گیا ہے-

یہاں امریکہ میں مجھے سڑکوں پر احتجاجی مناظر دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا- ذہن میں تھا کہ ہمارے ملک میں امریکی مخالف جذبات اتنے نمایاں ہیں تو یہاں ہم پر یہ اثرات کس طرح اثرانداز ہونگے- لیکن لگتا ہے یہاں عوام کو ان چیزوں سے کوئی خاص سروکار نہیں ہوتا- ہمارا پڑوس ایک امریکی خاندان ہے، میاں، بیوی اور ماں- تینوں کے تینوں سینئر اور کہنا چاہئے کہ بےحد اچھے پڑوسی-

میرے پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد ہی ہم اس نئے مکان میں شفٹ ہوئے تھے- ملاقات ہوئی تو بہاری کباب کا ذکر بھی آ گیا- کہنے لگے میں کھا چکا ہوں بہت مزیدار ہوتے ہیں- پھر سردیوں میں برف باری ہوئی تومیری بہو باہر نکل کر برف کی صفائی کر رہی تھی- کہنے لگے تم چھوڑ دو میں صاف کردونگا-

پھر ایک دن یوں ہوا کہ ہم سے ملنے کچھ لوگ آئے تھے- باہر انکی بیوی کھڑی تھیں، میری ایک مہمان کو دیکھا تو آگے بڑھیں اور اسکے لباس کے رنگ کی تعریف کرنے لگیں-

بہرحال، عمومی رویہ دوستانہ ہوتا ہے- سڑکوں پر، پارک میں، کسی مال کے سامنے، نظروں سے نظریں ٹکرائیں تو مسکراکر ہیلو ہائے ہوجاتی ہے، ایک دو جملے موسم کے بارے میں ہوجاتے ہیں -- اور پھروہ اپنی راہ اور ہم اپنی-

ستمبر میں میں یہاں پہنچی تو امریکی انتخابات کی گہما گہمی تھی (ہمارے یہاں کی طرح نہیں) ٹی وی پر اور اخباروں میں- اس بار سبھی جانتے ہیں کہ عام رجحان ڈیموکریٹس کی جانب تھا- چنانچہ اپنی پاکستانی کمیونٹی میں لوگوں سے ملاقات ہوئی تو یہی تذکرہ رہتا-

کچھ لوگ ریپبلکن پارٹی کے بھی طرفدارتھے- گرما گرم بحث بھی ہوتی لیکن ایک خاص حد کے اندر- ٹی وی پر دونوں پارٹیوں کے امیدوار صدور کی تقریریں بھی سنیں- بارک اوباما کی پہلی تقریر کے بعد تو لوگوں کے دل بیٹھنے لگے تھے، آگے کیا ہوگا- ٹی وی سن رہے ہیں، اخبار پڑھ رہے ہیں، سروے کا جائزہ لیا جا رہا ہے-

پہلی اور دوسری تقریر کا درمیانی عرصہ ٹینشن میں گزرا لیکن دوسری تقریر کے بعد اوباما کے حامیوں کو کچھ بوسٹ ملا اور تیسری تقریر کے بعد تو میدان الٹ چکا تھا. پاکستان کمیونٹی نے بھی ان انتخابات میں گہری دلچسپی لی-

میں جب پاکستان سے روانہ ہوئی تو پاکستان میں حالات بہت تشویشناک تھے- افواہوں کا زورتھا- الیکشن ہونگے، نہیں ہونگے --- فوج آئیگی، طالبان آئینگے --- جانے کیا کیا؟ عجیب و غریب خوفناک اندیشے تھے- یہاں ہم پاکستانی آپس میں ملتے تو سب ہم سے پوچھتے پاکستان میں حالات خراب کیوں ہیں، حکومت کیوں کچھ نہیں کرتی، عوام کیوں کچھ نہیں کرتے ---رشوت خوری کیوں ہے، چوری ڈکیتیاں کیوں ہو رہی ہیں، امریکہ سے فلاں فیملی گئی ائیرپورٹ سے گھر پہنچتے ہوئے راستہ میں لٹ گئی، گھر پہنچ کر لٹ گئی، پرس چھن گیا، موبائل چھن گیا، فلاں کا رشتہ دار مارا گیا، فلاں کا بیٹا اغوا ہوگیا.... میرے پاس کسی کا کوئی جواب نہیں، ایک بے بسی ہے-

یہاں پاکستانی خاندانوں کو رہتے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے- چالیس پچاس برس یا شائد اس سے بھی زیادہ گزر چکے ہیں- ان کی نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے- اسے تو کچھ خبر ہی نہیں ---ہم امریکیوں کی عقل پر روتے ہیں کہ انہیں یہ پتہ نہیں کہ پاکستان دنیا کے کس کونے میں ہے---- یہاں پیدا ہونے والی نسل سے پوچھئے وہ پاکستان کے بارے میں کتنا جانتی ہے- میرے خیال میں بس اتنا کہ میرے دادا دادی وہاں ہیں، میری نانی، خالہ وغیرہ وہاں ہیں، ہم ان سے ملنے گئے تھے- بڑا مزہ آیا ---!

ٹی وی پر پاکستانی چینل دیکھتے ہیں- عدم برداشت کے ہولناک مناظر، پریشان کن خبریں --- کیا ہوگا، کیا نہیں --- کون جانے-

الیکشن سے پہلے تبدیلی کی باتیں سنکر لوگ یہاں خوش تھے کہ حالات بدلینگے- نئی نسل اٹھ کھڑی ہوئی ہے، تبدیلی چاہتی ہے تو آنے دیں تبدیلی- جوان خون ہے، ان کا راستہ آپ کب تک روکیں گے اور کیوں؟ بڑی لمبی بحث ہے اور چلتی رہیگی- جب تک کہ حالات میں واقعی تبدیلی نہیں آجاتی-

شکاگو سے واپسی پر کچھ میٹھی یادیں یہاں سے لے جانا چاہتی ہوں- اس بار اچھی بات یہ ہوئی کہ مجھے یہاں اپنے لوگوں کی ثقافتی سرگرمیوں اور امدادی سرگرمیوں سے واقف ہونے کا سنہری موقع ملا- شکاگو کے اردو انسٹیٹیوٹ کی ادبی سرگرمیوں کا ذکر میں اپنے سابقہ کالموں میں کر چکی ہوں-

رومی اور اقبال سے متعلق سیمینار تو قابل تحسین تھا- انسٹیٹیوٹ کے صدر جناب امین حیدر صاحب نے مجھے بتایا کہ اب ان لوگوں کا پروگرام غالب پر ایک سیمینار کرنے کا ہے جس میں امریکی مقررین بھی حصہ لینگے. میں نے ان سے پوچھا میرے پیچھے تو نہیں ہوگا؟ میں اس میں شرکت کرنا چاہونگی.

شکاگو میں مئی سے بہار کا موسم باضابطہ شروع ہوجاتا ہے-

ہم نے یہاں کا بوٹینکل گارڈن دیکھنے کا پروگرام بنایا- کئی سو ایکڑ کے رقبے پر پھیلے ہوئے اس گارڈن میں تقریباً چھبیس گارڈن ہیں ---روزگارڈن، جاپانی گارڈن، ہیریٹیج گارڈن، پائین گارڈن، آبی پودوں کا گارڈن وغیرہ وغیرہ ---اس میں جھیلیں، آبشار، فوارے اور ہزاروں قسم کے پودے اور صرف پودے ہی نہیں ان کے نام اور درجہ بندی کی تختیاں جگہ جگہ لگی ہیں-

 سرکل گارڈن کا ایک منظرہ -- تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز
سرکل گارڈن کا ایک منظر -- تصویر بشکریہ وکی میڈیا کامنز --.

جاپانی گارڈن میں ناموں کے ساتھ ساتھ جاپانی کلچر کی روایات بھی لکھی ہیں ---ان کے باغوں کو سجانے کے انداز اور لینڈ اسکیپ کی چھوٹی چھوٹی لیکن دلچسپ باتیں- میں تو حیران ہوں کہ اتنے بڑے پیمانے پر یہ کام کس طرح ہوا ہوگا- کتنے ہزار دماغوں اور ہاتھوں نے اس کی تزئین و آرایش میں حصہ لیا ہوگا-

شکاگو کے بوٹینکل گارڈن کا باضابطہ آغاز 1965 میں ہوا (ہم ان دنوں ہندوستان سے جنگ کرنے میں مصروف تھے) اور اب اسے قائم ہوئے 48 برس گزر چکے ہیں دو سال بعد اسکی پچاسویں سالگرہ ہوگی- چالیسویں سالگرہ دس سال پہلے منائی جا چکی ہے-

یہاں چہل قدمی کرتے ہوئے میں ساتھ ساتھ ان تختیوں کو بھی پڑھ رہی تھی- کہیں معلومات درج تھیں تو کہیں یہ بتایا گیا تھا کہ اس جگہ آپ کہاں کھڑے ہوکر تصویر لیں تو بہترین تصویرآئیگی- کہیں پر ان والنٹییروں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا جنہوں نے دھوپ اور بارش کی پرواہ کئے بغیرپھولوں اور پودوں کے بیج بوئے تھے اور ان کی آبیاری کی تھی! یہ لوگ اپنی مدد کرنے والوں کو بھولتے نہیں. کہیں شاعروں کی نظموں کے کچھ حصے تحریر تھے جن میں قدرت کے حسن کی تعریف کی گئی تھی.

مختصریہ کہ یہاں کا بوٹینکل گارڈن سیاحت کا مرکز ہے- روزانہ لاکھوں لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں- گارڈن سارا سال کھلا رہتا ہے- اور صفائی کا یہ عالم ہے کہ تنکا نظر نہیں آتا- میں تقریبا چار پانچ گھنٹے وہاں رہی- اس دوران صفائی کرنے والے عملہ کا ایک آدمی بھی نظر نہیں آیا!

سیر کے دوران دلچسپ مناظر بھی دیکھنے میں آئے- ایک جگہ شادی کی ایک تقریب تھی (اس کیلئے مخصوص جگہ ہے) دو اور دولہا دلہنوں کو دیکھا- یہ نوجوان جوڑے اپنے دوستوں اور قریبی رشتے داروں کے ساتھ فوٹوگرافی کر رہے تھے- ہم نے بھی ایک جوڑے کی تصویر لی.

غرض کہ یہ قوم صحیح معنوں میں زندگی جیتی ہے- جنہوں نے بھی اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا ہے اور لے رہے ہیں یہ ویژن والے لوگ ہیں، اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایک شاندار ماضی اور شاندار مستقبل چھوڑ جائینگے-

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

امین حیدر May 28, 2013 11:04pm
شکاگو کا سفر نامہ تو بہت سوں نے لکھا ہوگا لیکن قیام نامہ کسی نے شائید ہی لکھا ہو - خوبصورت منطر و واقیعہ نگاری اور موسم بہ موسم بدلتے مناطر کا آنکھوں دیکھا حال پڑھ کر اچھا لگا - شکاگو شہر دل ہے - اس کی بزم ثروت سے جو لوٹا شاداب لوٹا - امین حیدر - شکاگو

کارٹون

کارٹون : 27 دسمبر 2025
کارٹون : 25 دسمبر 2025