• KHI: Sunny 21.8°C
  • LHR: Sunny 15.5°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.9°C
  • KHI: Sunny 21.8°C
  • LHR: Sunny 15.5°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.9°C

پی پی پی غائب نہیں ہوگی

شائع May 24, 2013

گڑھی خدا بخش  میں بلاول بھٹو زرداری ، صدر زرداری کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالیں مجمعے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اے ایف پی تصویر
گڑھی خدا بخش میں بلاول بھٹو زرداری ، صدر زرداری کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مجمعے کی جانب دیکھ رہے ہیں -- اے ایف پی تصویر

سپریم کورٹ کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کو پارلیمانی نشست کے لئے نا اھل قرار پانے کے بعد پیپلز پارٹی کو موقع ملا تھا کہ کوئی تشفی بخش چہرہ سامنے لائیں لیکن وہ لاۓ راجہ پرویز اشرف کو جو گیلانی سے بھی زیادہ بری شہرت رکھتے تھے-

حال ہی میں صحافیوں کے ساتھ ایک دھواں دھار اجلاس میں جب ان سے اس حرکت کی وجہ پوچھی گئی، پی پی پی کے رہنماؤں نے جواب دیا کہ وہ ایک حادثاتی وزیر اعظم تھے- پارٹی کے اصلی امیدوار مخدوم شہاب الدین تھے جنہیں صدر آصف علی زرداری نے منتخب کیا تھا-

جیسے ہی، وزیر اعظم کی پوسٹ کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی مدت ختم ہونے سے چند گھنٹے پہلے، اے این ایف نے ا یفیڈرین کیس میں مخدوم شہاب الدین کی گرفتاری کا حکم دیا، تو پارٹی نے فوراً کوئی متبادل ڈھونڈا اور قمرالزمان کائرہ کو چنا-

جس نے پی پی پی کے حمایتی گجرات کے چودھریوں کو چوکنا کر دیا کیوں کہ وہ اپنے علاقے سے وزیر اعظم نہیں چاہتے تھے- چنانچہ پارٹی نے تیسرے امیدوار کی تلاش شروع کر دی، ڈیڈ لائن بہت قریب آگئی تھی- پارٹی کے پاس آدھے گھنٹے سے کم ٹائم تھا کسی امیدوار اور اس کے ساتھ دو سفارشات کو پیش کرنے کا-

چناچہ صدر زرداری جو اس وقت سو رہے تھے جب شہاب الدین کے خلاف وارنٹ جاری ہوا، اور ڈیڈ لائن سے ایک گھنٹہ پہلے جاگے، کام چلانے کے لئے راجہ پرویز اشرف کو امیدوار بنا بیٹھے-

جب پی پی پی کے نمائندوں نے اپنی کہانی ختم کی تو ایک صحافی نے سوال کیا. "اگر آپ ملک کے وزیر اعظم کو اس طرح چنتے ہیں، تو کیا اب بھی آپ حیران ہیں کہ پچھلے ہفتے ہونے والا الیکشن آپ کیوں ہارے؟"

اس سوال نے کچھ اور سوالات کو ہوا دی، اور ایک پرو-پی پی پی صحافی کا کہنا تھا کہ پی پی پی کو "پھوپی فیکٹر" نے بھی مفلوج کیا ہے، ان کا یہ دعویٰ تھا کہ صدر کی ہمشیرہ فریال تالپور کا پارٹی پر کافی اثر و رسوخ ہے-

پی پی پی کے ذرایع کا کہنا ہے کہ بھائی بہن کی جوڑی پارٹی کے روایتی جیالوں کو ناپسند کرتے ہیں، خاص کر وہ جو بینظیر بھٹو کے قریب تھے یا جن کا پارٹی میں کچھ اثر و رسوخ تھا، جیسے ہالا کے مخدوم، جن کو فقط سیاسی وجوہات کی بنا پر رکھا گیا تھا-

اوپر سے یہ کہ جو لیڈر پارٹی میں دوسرے درجے پر تھے انکا مضحکہ اڑایا گیا اور کچھ کو پارٹی سے باہر بھی نکال دیا گیا-

کچھ اندرونی ذرایع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک پارٹی میٹنگ میں مسز تالپور نے ایک جیالے پر جوتا پھینکا تھا- ایک اور پارٹی ذرایع کا کہنا ہے کہ صدر خود پرانے لوگوں کی بے عزتی کرنا پسند کرتے ہیں-

ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران صدر نے اپنےایک سینئر اسسٹنٹ کو قریب رکھی گئیں قربانی کی بکریوں کو خاموش کرانے کو کہا، ورنہ انکو بھی بکریوں کے ساتھ باندھ دینے کی دھمکی دی-

لیکن ان دعووں کی توثیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہے-

ہو سکتا ہے یہ سب غلط ہوں لیکن ان سے پی پی پی کی اعلیٰ قیادت سے بیزاری ظاہر ہوتی ہے- یہ بحث آگے جا کر اس سوال پر رکتی ہے جو ہر پی پی پی کا حمایتی پوچھ رہا ہے کہ 'اب کیا کرنا ہے؟'

ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ اگر پارٹی اگلے انتخابات جیتنا چاہتی ہے تو اسے آیندہ پانچ سالوں میں خود کو دوبارہ منظم کرنا ہوگا اور اس کے حمایتیوں کے مشورے کے مطابق بلاول بھٹو کو پارٹی معاملات میں بولنے کا حق زیادہ دیا جانا چاہیے-

انکا یہ ماننا ہے کہ بلاول پارٹی کے ناراض کارکنوں کو واپس لانا چاہتے ہیں- کچھ وفاداروں کا کہنا ہے کہ بلاول پارٹی کو جمہوری بنانا چاہتے ہیں اور فیصلہ کرنے کے عمل میں پارٹی کے سینئر لیڈروں کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں-

پارٹی کے اندرونی ذرایع کے مطابق بلاول نے گیارہ مئی کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کی تقسیم پر کھلے عام تنقید کی تھی، انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مستحق امیدواروں کو چھوڑ کر ان لوگوں کو ٹکٹ دیے گۓ ہیں جو ان کے والد یا دوسرے سینئر لیڈروں کے قریب تھے-

اندرونی ذرایع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ بلاول، پنجاب سے دو قومی اسمبلی اور ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے ٹکٹ یوسف رضا گیلانی کے دو بیٹوں کو دینے کے فیصلے پر بھی ناخوش تھے- اور یہ سب الیکشن میں ہار گۓ-

اسلام آباد میں پی پی پی کے ایک اور امیدوار فیصل سخی بٹ کو بھی ٹکٹ ملا (وہاں کے مقامی پی پی پی کارکنوں کے خبردار کرنے کے باوجود کہ وہ بری شہرت رکھتے ہیں) کیوں کہ انکی صدر زرداری سے جان پہچان تھی- وہ بھی ہار گۓ-

پی پی پی کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ بلاول کام مختلف طریقے سے کریں گے کیوں کہ وہ مغرب میں پلے بڑھے ہیں، اور ان کے فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہونگے-

لیکن پی پی پی کے جیالوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے آیا بلاول میں اپنی والدہ اور نانا جتنا حوصلہ اور ارادہ ہے جو جابروں کے خلاف لڑے اور انکو نیچا دکھایا؟

اور اس سے بھی اھم یہ کہ کیا بلاول اس عمل سے گزرنا چاہتے ہیں؟

کچھ تو ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے، اور یہ کہ زرداری صاحب کو اپنی کسی ایک بیٹی کو سیاست میں لانا پڑے گا-

اور یہ بات ایک اور سوال کی طرف لے جاتی ہے کہ کیا بھٹو خاندان میں اب بھی وہ کشش ہے جو لوگوں کو پی پی پی کی طرف واپس لاۓ؟ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'خاندانی سیاست' کے دن اب ختم ہو چکے ہیں-

ہو سکتا ہے ایسا ہے ہو، لیکن بھٹو خاندان اب بھی موزوں ہے، اور صرف سندھ ہی میں نہیں-

اور وہ پارٹی جس کی یہ قیادت کرتے ہیں ہو سکتا ہے پچھلے پانچ سالوں میں کمزور ہو گئی ہو لیکن یہ اب بھی ایک بڑی سیاسی طاقت ہے، اور اگر اسے مناسب لیڈر مل گۓ تو یہ واپس میدان میں آجاۓ گی-

پی پی پی کے ایک سابق مرکزی وزیر نے خبردار کیا ہے کہ وہ مسلۂ جس کی وجہ سے پارٹی کو زوال آیا ہو سکتا ہے وہی اسکو دوبارہ عروج پر آنے میں رکاوٹ بنے، وہ ہے "توانائی کا بحران"-

انکا یہ خیال ہے کہ بجلی کا بحران ہو سکتا ہے آیندہ دس سے پندرہ سال تک چلتا رہے، لیکن اگر شریف برادران کوشش کریں تو لوڈ شیدڈنگ کا دورانیہ تین گھنٹے روزانہ تک ہو سکتا ہے اور اگر وہ یہ کرنے میں کامیاب ہو گۓ تو انکو ہٹانا مشکل ہو جاۓ گا-


ترجمہ: ناہید اسرار

انور اقبال
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025