سندھ کا ٹھپہ گروپ
سندھ میں ٹھپہ الیکشن سے پہلے ھی پہنچ گیا تھا، گرچہ یہ وہ ٹھپہ تو نہیں تھا جسکی سیاھی بیلٹ پیپر پر کسی کو جتوا یا ھرا سکتی، یہ دراصل وہ خاص مھریں تھیں جن کا اس سے پہلے استعمال کا ٹھیکہ ان تنظیموں نے لے رکھا تھا جن کو عرفِ عام میں خفیہ تنظیمیں کہا جاتا ھے۔
یہ تنظیمیں مملکتِ خداداد میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بیج بازؤں پہ لگائے، جیب میں یہ مہریں لیئے نظریئہِ پاکستان کی پاسبانی کی ٹھیکیدار بنی بھرتی ہیں۔
یہ ٹھپہ آئی ایس او کے سرٹیفکٹ پہ لگی مھر جیسا ھی تھا، جس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ھماری نظریاتی سرحدوں کی پاسبان یہ تنظیمیں اس مہر کو کسی بھی سرکش روح کی سر کوبی کے استعمال میں یوں آزاد رھیں ھیں کہ اس مہر سے انہوں نے ٹھپہ لگا کر وہ بنگالی نسل کی ڈیڑھ فٹی قوم کو کوئی تیس پینتسں سال پہلے یوں بوٹوں تلے کچلا کہ ان کے پیچھے چھوڑے ھوئے نقشِ پا کو جنگی کرائم کے عجائب گھر بنا کر وہ ڈیڑہ فٹی بنگالی قوم اب تک کئی دل سوزکھانیاں سناتی رھتی ھے۔
بنگالیوں کی داستانِ آزادی بھی اس مھر کے استعمال سے یوں معروضِ وجود میں آئی کہ اس مھر سے جاری کردہ سرٹیفیکٹ عموما غداری اور کفر کے ھوا کرتے تھے۔ اس ٹھپے کا پہلا شکار وھی بنگالی بنے جن کا حصہ تحریکِ پاکستان میں بھرحال اس جی ٹی روڈ سے زیادہ رھا تھا جو ایسے جوانوں کے لئیے سب سے زیادھ زرخیز رھی ھے جو ھمارے سرحدوں کی حفاظت کی بارودی و تھنک ٹینکوں کے خالق رھے ھیں۔
جان چھوٹی تو لاکھوں پائے کے مصداق ایک بازو بمشکل اس ٹھپے کے عذابِ سے رھائی پانے میں کامیاب ھوا، تو ٹھپہ ساز فیکٹری بجائے بند ھونے کے یوں ترقی کی راھ پہ گامزن ھوئی کہ پھر وہ چھوٹے صوبے بھی اس طبع آزمائی کا شکار ھوئے جن کے جوانوں کے لیئے ٹینکون کی سواری کی ممانعت تھی۔
اس ریاست میں یھی رسم چل نکلی تھی کہ جو ٹینک پہ نھیں تھا اس کا ٹینک سے کچلا جانا طئے تھا اور یوں قرآن بیچ میں لاکر بلوچستان کی سرکش روحوں کو پھاڑوں سے اتار کر چھلنی کیا جاتا رھا۔ پہاڑوں سے سرکشی کا پہلا سبق سیکھنے والے بلند حوصلہ نوروز خان کی سفید باریش نعش جیل خانے سے نکلی مگر سر میں خم نہ تھا کہ یہ گردن جھکی نہ تھی مگر ٹھپہ فیکٹری تھی کہ اس کے شکار کم ھونے کے بجائے بڑھتے چلے گئے کہ آخر کو انکی روزی روٹی بھی اس ٹھپہ کے استعمال سے جڑی تھی۔
جس صوبے کی اسمبلی سب سے پہلے پاکستان کے قیام کی قراداد لانے کی مجرم ٹھری تھی ٹھپے کا استعمال وھاں بھی بے دردی سے چلا پر جی ایم سید کی بوڑھی روح کو فرمانبردار بنانے میں ناکام رہا۔ وہ جو اپنی جوانی میں قیامِ پاکستان سے پہلے قائدِ اعظم پہ حملے کی خبر سن کر شدتِ غم سے بیہوش ھو گئے تھے اپنی آخری سانسون تک اس دو قومی نظریئہِ پاکستان کو ماننے سے انکاری تھے، پاکستان کی تاریخ میں شاید وہ واحد بزرگ سیاستدان تھے جس نے اپنی آخری سانس بھی نظربندی میں لی۔
مسلم لیگ سے اپنی سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والے اور کبھی قائد کے ساتھی رھنے والے اکانوے سالہ اس بزرگ کی جسدِ خاکی جب جناح ھسپتال سے باھر لائی جا رھی تھی تو اس وقت بھی دو سپاھی انکے کمرے کے باھر پہرہ دینے کی ڈیوٹی سر انجام دے رھے تھے وہ پاکستانی ریاست کے غدار و کافر دونوں کی تہمت ساتھ لیئے خاک میں مدفن ھوئے۔
یہ ٹھپہ پٹھانون کے سرحدی گاندھی کو بھی مشکوک پاکستانی بنا گیا۔ سندھ میں اس ٹھپے کا شکار فقط سیاستدان نہیں تھا مگر لبرل سوچ رکھنے والا ھر لکھاری، شاعر و دانشور بھی اس کی زد میں تھا کہ ان پہ گر غداری کا ٹھپہ نہ چلتا تو کافر اور ایجنٹ کا ٹھپہ بھی اسی نظریاتی فیکٹری کی پروڈکٹ تھا مگر چونکہ اس وقت تک سعود و امریکہ سے جہاد کی فنڈنگ کا آغاز ابھی نہیں ھوا تھا اس لیئے اس کفر کے ٹھپے کے استعمال کا ٹھیکہ ابھی مودودی کی جماعت تک محدود تھا۔
مودودی کی جماعت تھی جس نے اس ٹھپے کے استعمال میں یھاں تک آزادی پائی کہ الشمس و البدر کے نام پہ ان پہ بنگالیوں کا خون حلال ٹھرا۔ سندھ میں بڑے شاعر شیخ ایاز سے لیکر ھر اس شاعر و ادیب کی دھلائی کی گئی جو آزادی اظھار کا علمبردار نکلا اور جس کا ایمان آزادیِ انسان سے وابستہ تھا۔ اس ٹھپے سے ادیبوں، شاعرون و داشوروں کے قیدو بند کی روایت جتنی سندھ میں پختہ ھوئی وہ اپنی مثال ٹھری۔
قصہِ مختصرکہ یہ سب داستانیں ھوئیں ماضی کا حصہ مگر اب کے جس ٹھپہِ غداری کا ذکر ھے وہ نہ ان خفیہ ایجنسیون کی کارستانی اور نہ عمران خان کے ساتھ نئے ہنی مون کو نکلی جماعتِ اسلامی کا اس میں کچھ ہاتھ ھے۔
بچاری خفیہ ایجنسی و جماعت دونوں طالبان کے نئے لو افیئر میں کچھ اس طرح سے کھوئی ہیں کہ باقی ایجنٹ و غدار کی مھر لگانے کا کام کے لیئے انہوں نے مقامی بغل بچہ تنطیموں کو فرنچائز کردیا ھے اور یہ ٹھپہ تھوڑا سا یوں بھی موڈیفائے کیا گیا کہ اب پاکستان کی جگہ سندھ دیئے دیتے ھیں کہ سندھ سے غداری کی مھر ان کے ھاتھ میں تھی اور اس ٹھپہ کو الیکشن کی تیاری کے لیئے اور مجوزہ نتائج کے حاصلات کا بہتر طریقہ جانتے ھوئے سندھ میں یوں متعارف کرایا گیا کہ ہدف سامنے تھا اور ٹھپہ پہ ٹھپہ تھا۔
سندھ سے غداری کے ٹھپہ کا آغاز اسی حکمراں پارٹی سے کیا گیا جو کہ اپنے سارے کارڈوں کا بیلنس کھیل چکنے کے باوجود نہ تو عوام میں وہ مقبولیت برقرار رکھ سکی تھی اور نہ ھی اپنی تنظیمی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی عوامی رابطہ مہم چلا سکی تھی اور تو اور اس دفعہ کھانے پینے میں مشغولیت کے باعث بیچاری حکمران جماعت اپنے اس قائدِ عوام کی برسی بھی خلاف روایت گڑھی خدا بخش میں منا نہیں پائی تھی اور یوں جیئے بھٹو کے نعروں سے شروع و ختم ھونے والی تقریب اس دفعہ تلاوت سے شروع ھو کر اک باریش مولوی سے مرحوم کے ثوابِ دارین اور جھموریت کو پٹڑی پہ چلتے رکھنے کی دعا سے اختتام پذیر ھونے پہ بیشک کچھ دل جلوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بی بی اور بھٹو کی جماعت کی بھی دعائے فاتحہ تھی کہ بھٹو کی برسی پہ اس دفعہ اسٹیج پہ پارٹی کے ان سینئر کارکنان کے بجائے زرداری خاندان کے بشمول اویس مظفر ھاشمی المعروف ٹپی کے افرادکو براجمان دیکھا گیا، اس لیئے اس کو اب بی بی کی پیپلز پارٹی کے بجائے اگر زرداری کی پارٹی کہا جائے تو کچھ غلط نہ ھوگا۔
اللہ بھلا کرے اس پہاڑی مخلوق طالبان کا جنہوں نے بہرحال پارٹی کو پورے پاکستان میں میاں صاحب یا تبدیلی پسندگان کی طرح کوئی جمِ غفیر قسم کا جلسہ نہ کرنے کی رسوائی سے بچا لیا حالانکہ سب جانتے ھیں کہ اندورنِ سندھ پیپلزپارٹی کو اس قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ بات ٹھپے کی ھو رھی تھی تو اسکا پہلا حدف پیلپلز پارٹ بنی وجہ وہ متنازعہ مقامی حکومتوں والا بل تھا جس میں شہری اتحادی جماعت کو خوش کرنے کے لیئے اندرونِ سندھ کی ناراضگی مول لی گئی۔ اس بل کی واپسی تک پیپلپز پارٹی کی ساکھ کو کتنے ہی ڈینٹ کیون نہ پڑے مگر اس کا اثر اسکے ووٹ بینک کو کچھ زیادہ متاثر نہیں کر سکا۔
اس دوراں غدارِ سندھ کا نعرہ کچھ ایسی مقبولیت اختیار کر گیا کہ اس کے استعمال میں گرانقدر اضافہ دیکھنے میں آیا اور نہ صرف یہ مگر کچھ بغل بچہ پارٹیوں نے اور کچھ اسائنمنٹی لفافہ ٹائپ کے خود ساختہ دانشوروں و پبلشروں اور چند لفافہ فیم صحافیوں کی محبِ سندھ برگیڈ بھی معروضِ وجود میں آگئی جنھوں نے غدارِ سندھ کا ٹھپہ اپنی جیب میں رکھ لیا، اور پھر کام یوں شروع کیا کہ کہیں بھی بات عقل و دلیل کی ممکن نہ رھی۔ کون کون تھا جو ان کے عتاب کا شکار نہ ھوا۔ یہ انکی اس محبِ سندھ برگیڈ کی صوابدید پہ تھا کے چاھے تو ان کو غدار کا ٹھپہ لگا دے جو اس متنازعہ بل کے خلاف سپریم کورٹ تک جا پہنچے مگر وہ چونکہ سڑک پہ ان کے ساتھ نعرے لگا کر کسی پ پ پ مخالف پارٹی کی کھانے کی میز تک نہ پہنچے تو وہ غدار کھلائے گئے۔
منطق کا سرا یہ تھا کہ پیپلز پارٹی تو غدار ھے تو اس لیئے اسکی مخالف عین محبِ سندھ کہلائے گے، چاھے وہ ان کے پیپلز پارٹی کی مفاھمت میں وزارتوں سے لیکر ھر چیز میں سانجھے کے شریک رھے ھوں، اور تو اور حیدرآباد کے ٹکڑے کرنے والے اور مشرف کے ساتھ با مشرف رھنے والے سب ایک رات کے اندر محبِ سندھ بن گئے۔
بات یہیں تک رھتی اور ھدف صرف سیاسی پارٹی بنتی تو ٹھیک تھا مگر یہ بے لگام ٹھپہ ھولڈر گروپ اب جب الیکشن میں کسی بھی وجہ سے شکست زدہ ھوا ھے تو اب ان کے ٹھپوں کا نیا حدف اب ھر وہ ادیب، شاعر، صحافی بن رھا ھے جو عوام کے مشترکہ فیصلے کو سب سے زیادہ معتبر گواھی ماننے والے قبیلے سے تعلق رکھتاھے اور یوں عوام کے فیصلے کو درست ماننا بھی جرمِ سندھ ٹھرا۔
گیارہ مئی عوام کا دن تھا، اسکے فیصلے کا دن تھا مگر بارہ مئی سندھ میں ایک نئے کلچر کی ابتدا کا دن تھا اس دن کی شروعات ایسی تھی کہ کچھ شکست زدہ لوگوں نے اس دن کی ابتدا عوام کو گالی گلوچ دینے سے شروع کی۔
سندھ میں سوشل میڈیا اور موبائل فون پہ ان کی طرف سے سندھی عوام کو جو گالی پڑی ھے وہ سندھ کی تاریخ میں شاید اک ریکارڈ ھو، مسترد شدہ سیاسی گروھوں کی طرف سے یہ ابتدا اچھی نہیں تھی، اپنی شکست اور دوسرے کی جیت کو سمجھنے کے لیئے معروضی تجزیئے کی ضرورت تھی۔ کن مجبوریِ حالات نے عوام کو دوبارہ اسی پیر، میر کی پناہ لینے پہ مجبور کیا، کیوں وہ سندھ میں تھرڈ آپشن پیش کرنے میں ناکام رھیں۔ اس الیکشن کو اس طرح سے دیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی کہ سندھ میں یہ بھی تو پہلی بار ھوا ھے کہ اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پہلی دفعہ اتنی بڑی تعداد میں اینٹی پی پی پی ووٹ ڈالا گیا ھے۔
پیپلز پارٹی کو بھی اپنی جیت کے جشن سے پہلے اس تجزیئے کی شدید ضرورت ھے کہ وہ لگ بھگ تمام شھری پولنگ اسٹیشن سے کیوں ھاری ھے، پیپلز پارٹی ماضی کے اس جارحانہ اور جاگیردارانہ ذھنیت سے باھر آئے اور سوچے کہ پیروں، وڈیروں اور سرداروں کے پاس گروی ووٹ لینا الگ بات ھے، آخر کو کیوں پیپلز پارٹی سندھ کے پڑھے لکھے، شھری اور نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رھی ھے؟ مگر لگتا نہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اس دفعہ بھی اس پرانے اور مسترد کردہ طرزِ حکومت سے بازآ ئے۔
سندہ میں معروضِ وجود میں آنے والی ٹھپہ پارٹی غدارِ سندھ کے سرٹیفکٹ ایشو کرنے والے معززین دانشور و پبلشر و صحافی والی سب سے زیادہ متحرک رھنے والی برگیڈ کو بھی اک عرض کرتے چلیں کے جناب حیدرآباد سے قومی سیٹ پہ نامزد ڈاکٹر رجب میمن جوکہ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ھیں، ان کے اس بیان سے ذرا سبق حاصل کرنے کی کوشش کریں، جس نے دوسرے دن ھی اپنے پیغام میں صاف الفاظ میں کہا کہ ’’کچھ جذباتی قسم کے مڈل کلاسیہ قومپرست عام لوگون کو پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے پہ کوس رھے ھیں یہ ان کا ذاتی خیال ھو سکتا ھے مگر معروضی تجزیئے میں کتنے ھی دوسرے عوامل شامل ھیں جن کا جائزہ لینا ضروری ھے"۔
بیشک ڈاکٹر رجب کے تجزیئے میں شامل ان دس عوامل میں الیکشن کمیشن کی ناقص کارکردگی اور پیچیدہ طریقہ کار اور بڑے پیمانے پہ دھاندلی بھی شامل ھے مگر کہیں بھی انھون نے ٹھپہ لگاتی عوام کو نہیں کوسا۔ مگر اب کیا کیجئیے کہ ڈاکٹر رجب میمن سا حوصلہ ھر ھارنے والے میں نہیں اور ان میں تو بلکل نہیں جو چالیس سال سے سندھ کا نام لے کر سیاست کرتے رھے مگر آمروں کی طرح عوام سے نفرت کے رویئے کو چھپانے مین اب تک ناکام ھیں، بے شک بظاھر انکی سیاسی جماعت کی مخالفت کا ہدف شھری ووٹ پہ قبضہ رکھنے والی جماعت ھو سکتی ھے مگر لگتا ھے کہ محبِ سندھ کا ٹھپہ رکھنے والی دانشوروں کی برگیڈ سے لیکر ان جماعتون تک اپنی بات منوانے کے لیئے سیاسی مکالمے کے بجائے گالی اور دھمکی کا فاشی انداز کچھ زیادھ بھا تا ھے۔۔۔۔۔
سنا تھا کہ جب نورالھدیٰ شاھ نگران حکومت میں وزارتِ اطلاعات کا حلف اٹھا رھی تھین تو یہ برگیڈ سر جوڑ کر انکو غدارِ سندھ ڈیکلیئر کرنے والے تھے، پتہ نھیں اب نورالھدی شاھ کا اسٹیٹس کیا ھے مگراپنے رد کیئے جانے پہ عوام کو گالی دینے والے کی طرف سے غدار یا ایجنٹ کی ایک مھر اپنی پیشانی پہ دیکھنے کے باوجود کچھ سرکشی ابھی باقی ھے کہ عوام کی رائے کے احترام سے باز نہیں آنا کہ گر اس فاشی رویئے کویھاں نہ روکا گیا تو ھٹلر کی ذھنی باقیات کو شاید کئی نسلوں کو بگھتنا پڑے۔
تبصرے (4) بند ہیں