کیڑے کھائیں، اقوام متحدہ کا دنیا کو پیغام
روم: اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے کہا ہے کہ اگر مغربی صارفین ہضم کرنے کو تیار ہو جائیں تو کیڑے مکوڑے اضافی ڈائیٹ کے طور پر ماحول دوست خوراک کا کام دے سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) نے پیر کو کہا کہ : ہمارا مرکزی پیغام نہایت واضح ہے، کیڑے کھائیں۔
ایف اے او کے ایک ڈائریکٹر ایوا ملر نے روم میں پریس کانفرنس سے گفتگو میں کہا کہ کیڑے بڑی تعداد میں میسر ہونے کے ساتھ ساتھ پروٹین اور منرلز(معدنیات) کا مؤثر ذریعہ ہیں۔
ملر کے مطابق، دنیا کے تقریباً ایک تہائی آبادی (دو ارب لوگ) پہلے ہی کیڑے کھا رہے ہیں کیونکہ یہ لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ کئی مغربی ملکوں میں کیڑوں کو پروٹین حاصل کرنے کے اہم ذریعہ بنانے میں لوگوں کے ہاضمہ اہم رکاوٹ ہے۔
پریس کانفرنس سے گبون کے وزیر جنگلات گیبریل چینگو نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'کیڑے کھانا ہمارا روز مرہ معمول کا حصہ ہے۔
اگیبریل کے مطابق بھنورے، لاروا اور گرلڈ دیمک جیسے کیڑوں کو سوغات سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کیڑے عالمی آبادی کی جانب سے کھائے جانے والے جانوروں کے پروٹین کا دس فیصد حصہ ہے۔
ایف اے او اور ہالینڈ کی ویگی ننگن یونیورسٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خوراک کی کمی کا مقابلے کرنے کے بہت سے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کیڑوں کی فارمنگ بھی ہے۔
'کیڑے ہر جگہ ہیں اور ان کی تعداد بہت تیزی سے بڑھتی رہتی ہے۔ ان کی نشونما کا تناسب بھی زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ماحولیات پر منفی اثر بھی کم ہوتا ہے'۔
رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ کئی مغربی ملکوں میں کیڑوں کو پروٹین حاصل کرنے کے اہم ذریعہ بنانے میں لوگوں کے ہاضمہ اہم رکاوٹ ہے۔
میولر نے کہا کہ کچھ کمپنیاں مثلاً ڈینن اور اطالوی شراب ساز کمپنی ، کیمپیری اپنی مصنوعات میں رنگ شامل کرنے کیلئے کیڑوں کا استعمال کرتی ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھانے کی ریسپی اور ریستوران مینو میں شامل کرکے ' کیڑوں کی اہمیت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔'
بھنورے ، ٹڈے اور دیگر کیڑے مکوڑے یورپی ممالک کی ہوٹلوں کے مینو میں اب نظر آنے لگے ہیں۔ اسی طرح کرکٹ نامی کیڑے کی تصاویر بھی اب ہوٹلوں میں نظر آنے لگی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مویشیوں کو چارے کے طور پر بڑے پیمانے پر کیڑے مکوڑے کھلائے جائیں۔ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ سرمایہ کاری نہ ہونےا ور ناقص قوانین کی وجہ سے یہ رحجان روایتی خوراک کی جگہ نہیں لے پارہا۔
' کیڑوں کو وسیع پیمانے پر خوراک کا حصہ بنانا قابلِ عمل ہے۔ اور دنیا میں کئی کمپنیاں پہلے ہی بازی لے جاچکی ہیں، ' انہوں نے کہا کہ چین، جنوبی افریقہ، سپین اور امریکہ اس میدان میں آگے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 1,900 کے کیڑے مکوڑے کھائے جارہے ہیں۔ اس وقت بینک کاک اور کنساشا میں بڑے پیمانے پر حشرات کھائے جاتے ہیں۔
' کیڑے روایتی ذرائع مثلاً چنا، مکئی ، سویا اور مچھلی وغیرہ کی جگہ لے سکتے ہیں،' ۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے بلاک سولجر مکھی، گھریلو مکھی اور پیلی سنڈیوں کو خوراک کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسان سب سے زیادہ جن حشرات کو خوراک کا حصہ بناتے ہیں ان میں بھنورے ( 31 فیصد) ، کیٹرپلرز( 18 فیصد)، بھڑ، مکھیاں اور چیونٹیاں ( 14فیصد) شامل ہیں ۔ ان کے بعد ٹڈے، لوکسٹ اور کرکٹ وغیرہ شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 1,900 کے کیڑے مکوڑے کھائے جارہے ہیں۔ اس وقت بینک کاک اور کنساشا میں بڑے پیمانے پر حشرات کھائے جاتے ہیں۔
بڑے کے گوشت کی ایک سو گرام مقدار میں صرف چھ ملی گرام فولاد ( آئرن) ہوتا ہے۔ جبکہ بڑے ٹڈے کی سو گرام مقدار میں آٹھ سے بیس ملی گرام آئرن ہوتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کیڑوں کو ایک کلوگرام گوشت بنانے کیلئے صرف دوکلوگرام خوراک کھانا ہوتی ہے جبکہ مویشی آٹھ کلو کھاتے ہیں تو ایک کلو گوشت پیدا کرپاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں عوام میں خوراک اور غذائی ترجیحات بہت جلدی بدلی جاسکتی ہیں۔ مثلاً لوگ سوشی کی ایک قسم میں کچی مچھلیاں کھاتے ہیں۔