رومی سے اقبال تک
اپریل کا مہینہ پاکستان اور دنیا بھر میں یوم اقبال کی تقریبات کا مہینہ ہے- اقبال کی شاعری اور فلسفہ کے کئی پہلو ہیں اور ہر طبقہء فکر کے لوگ اپنے اپنے نظریات کے مطابق ان کی شاعری اور فلسفہ کی توضیح کرتے ہیں- ان کی شاعری کے آفاقی پہلو نے دنیا بھر کے دانشوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے- چنانچہ، یہاں شکاگوکی شامبرگ لائیبریری میں یوم اقبال کے سلسلے میں ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا -
یہ ادبی محفل 28 اپریل بروز اتوار منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈاکٹرایم .ایم تقی خان نے کی - تقی خان صاحب کو اپنے لڑکپن میں علامہ اقبال سے 1936 میں ملنے کا اتفاق ہوا تھا -اس لئے بجا طور پر انھیں صدارت کا اعزاز سونپا گیا - ڈاکٹر تقی عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے سربراہ رہ چکے ہیں اور بہ حیثیت سائنسدان بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں - وہ سالٹ اور میرین کیمیکلزریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائرکٹر بھی رہ چکے ہیں - انھیں علامہ اقبال کی شاعری اور نظریات سے خاص لگاؤ ہے -اقبال سوسائٹی کے رکن بھی ہیں اور اقبال کے موضوع پر لکچرز بھی دیتے رہتے ہیں -
اس نشست کے کلیدی مقررڈاکٹر فرینکلن ڈی لیوییس تھے جنھیں رومی پراتھارٹی مانا جاتا ہے - ڈاکٹر لیوس یونیورسٹی آف شکاگو میں ایسوسئیٹ پروفیسر ہیں اور ڈیپارٹمنٹ آف نیئرایسٹرن لینگویجزاینڈ سویلیزیشن کے شعبہ میں فارسی زبان اورادب کی تعلیم دیتے ہیں - فارسی زبان اورادب ، اسلامی صوفی ازم ، عربی ادبیات ، اور ایران میں مذہب کے موضوع پر ان کی کئی ایک تصنیفات شائع ہو چکی ہیں - بہائی مذہب کا بھی انہوں نے وسیع مطالعہ کیا ہے - ڈاکٹر لیویس نے ادبیات کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا ہے جس میں اسلامی دنیا میں ادب کے موضوع پربحث مباحثے کئے جاتے ہیں -
اس پروگرام کا آغاز اقبال کی مقبول عام دعا " لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری " سے ہوا جسے یہاں کے معروف نوجوان کمیونٹی لیڈر ڈاکٹر علی احمد اوران کے خاندان نے پیش کیا جس کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کیا گیا- یونیورسٹی آف شکاگو کے تین طلباء و طالبات نے فارسی اورانگریزی زبانوں میں اپنے مقالے پڑھے - جین مائیکل سن غالب اور بیدل کی فارسی شاعری پر کام کررہی ہیں - انہوں نے اقبال کی نظم دین ووطن پڑھ کر سنائی اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا - فرانچسکا چب - کونفر نے اقبال کی نظم " ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں " پڑھی اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا - تھیوڈوربیرزپی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں - انہوں نے" پیام مشرق " کے ذریعہ کلاسیکی فارسی شاعری کی روایت پر روشنی ڈالی -
ہانیہ یامین لمز کی طالبہ ہیں اور فلبرائٹ اسکالر شپ پر امریکہ آئی ہو ئی ہیں - انہوں نے اپنے مقالہ میں اقبال کی شاعری اور فکر پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ وہ اقبال کی شاعری سے اپنے لئے رہنمائی حاصل کرتی ہیں -
ڈاکٹرفرینکلن لیویس نے اقبال کی زندگی کے مختصر حالات اور انکے افکار کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا اوراقبال کی شاعری پر رومی کے اثرو نفوزپر روشنی ڈالی - اس ضمن میں مجھے اقبال کی نظم " پیرومرید " یاد آرہی ہے جس میں اقبال خود کو مرید ہندی اور مولانا رومی کو پیر رومی کے نام سے یاد کرتے ہیں -اقبال کی نظروں میں رومی کا درجہ کیا تھا اس کیلئے ان کے یہ اشعار پڑھئے -
اے امام عا شقان درد مند ! یاد ہے مجھ کو ترا حرف بلند خشک مغزو خشک تارو خشک پوست از کجا می آئد ایں آواز دوست یہاں فرینکلن ڈی لیویس کی کتاب " رومی : پاسٹ اینڈ پریزینٹ ، ایسٹ اینڈ ویسٹ "- کا ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا - لیوس کی یہ معروف کتاب 2001 میں شائع ہوئی اور تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے ان کی زندگی ، تعلیمات اور شاعری کا جائزہ لیا ہے - یہ کتاب رومی کے دور سے لیکرعصرحاضر کو محیط کرتی ہے اور تاریخی پس منظر میں لکھی گئی ہے - لیویس مغرب میں مولانا رومی کی مقبولیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغرب میں ان کے شائقین " روحانیت " کی تلاش میں بسا اوقات ان کی شاعری کو اس کے تاریخی پس منظر سے جدا کر دیتے ہیں - لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رومی کی شاعری مغرب کے ادبی حلقوں اور روحانیت کی دنیا میں روزافزوں طور پر مقبول ہو رہی ہے - رومی کی شاعری کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ان کی نظموں کا ایک انتخاب جسے دیپک چوپڑا نے ترتیب دیا تھا امریکہ کے bill board کے بیس مقبول ترین نغموں میں شامل رہا - اور اس کے گلوکاروں میں میڈونا ، گولڈی ہان ، فلپ گلاس اور ڈینی مورجیسے فنکار شامل تھے -
مذکورہ بالا کتاب کے آخری حصے میں لیوس ہمیں بتاتے ہیں کہ مولانا رومی کو ترکی ، عربی اور فارسی کے علاوہ یوروپ کی مختلف زبانوں میں پڑھایا جارہاہے - یوروپ کی بیشترزبانوں میں ان کی شاعری کے تراجم شائع ہو چکے ہیں جن میں سے کول مین بارکس کا ترجمہ بے حد مقبول ہے درحقیقت مغربی دنیا میں رومی کی مقبولیئت بارکس کے ترجمے کی ہی مرہون منت ہے - گرچہ کہ بارکس خود کہتے ہیں کہ یہ ترجمہ رومی کے اصل نسخے سے نہیں کیا گیا ہے ( اس زمانے کی فارسی آج کی فارسی سے بہت مختلف تھی ) انہوں نے نکلسن اور آربری کے تراجم سے استفادہ کیا جو عصر حاضر کی امریکن شاعری کے مزاج کے مطابق ہے - وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ موسیقی ، رقص اور مصوری کے شعبوں میں بھی بین الاقوامی سطح پر ان کی شاعری سے استفادہ کیا جارہاہے -
اقبال کی شاعری رومی کی شاعری کا تسلسل ہے- لیوِیس کا کہنا ہے کہ رومی نے دور جدید کے مفکرین کو متاثر کیا ہے اقبال کے علاوہ شبلی نعمانی نے بھی رومی کی عظمت کا اعتراف کیا ہے - انقلابی ایران کے دانشوربھی رومی کی شاعری اوران کے افکارسے استفادہ کرتےرہے ہیں-
اقبال رومی سے کس حد تک متاثر تھے - محققین کے مطابق اقبال کی فارسی نظموں میں رومی کا نام ستّر بار آیاہے ،( حضرت محمدؐ کا ذکرسب سےزیادہ ہے ) اردو نظموں میں انہوں نے تیئیس بار رومی کا نام لیا ہے - ہندوستانی دانشوروزیرالحسن عابدی کے مطابق اقبال کی شاعری میں 119 قرآنی اقوال موجود ہیں جن میں سے 98 رومی نے اپنی مثنوی میں استعمال کئے ہیں - اور اب سنئے کہ مثنوی روم کے بارے میں چودہویں صدی کےممتازشاعراورعالم دین حضرت عبدالرحمٰن جامی نے کیا فرمایا ہے - ؎ مثنوی ، معنوی ، مولوی ہست قرآں در زبان پہلوی من نمی گویم کہ آں عالی جناب ہست پیغمبر، ولے دارد کتاب
مولانا رومی کا پیغام آفاقی ہے - ان کے یہ اشعار پڑھئے ؎ در راہ طلب عاقل و دیوانہ یکیست در شیوۂ خویش و بیگانہ یکیست آں را کہ شراب وصل جاناں دادند در مذہب او کعبہ وبتخانہ یکیست
ماییم کہ گه نہان و گه پیداییم گه مومن و گه یہود و گه ترسا ییم تا ایں دل ما قالب ہر دل گردد ہر روزبہ صورتی برون می آئیم
آر اے نکلسن پروفیسرکیمبرج یونیورسٹی ( 1868سے 1945) جس نے اپنی ساری زندگی رومی کی شاعری اور فکرکی تحقیق کےلئے وقف کردی اور جسے مولانا رومی پرعظیم ترین اتھارٹی اور مترجم تسلیم کیا جاتا ہے ، مثنوی کے بارے میں اس کی رائے سنئے -
" مثنوی ایک باوقاراورعظیم الشان بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے پرسکون اورگہرا، جوراستے کے ہرنشیب و فراز سے بے نیازایک لامتناہی سمندر سے ہم آغوش ہو جاتا ہے - ان کا دیوان جھاگ اڑاتی ہوئی پرجوش لہروں کی مانند پہاڑوں کی پاکیزہ تنہائیوں میں کھوجا تا ہے --- رومی ہر دور کا عظیم ترین صوفی شاعر ہے "
اردو انسٹیٹیوٹ شامبرگ لائبریری اور اردو ٹائمز کے اشتراک سے منعقد ہونے والی یہ منفرد تقریب بہت دنوں تک یاد رکھی جائیگی - جس میں عمائدین شہر اور شائقین کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی - اس قسم کی تقاریب نہ صرف ذہن اور روح کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہیں بلکہ ذہنوں کو کھولنے اور رواداری اور برداشت کے جذبات کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کرتی ہیں - شامبرگ لائبریری کی انتظامیہ بھی لائق تحسین ہے کہ انہوں نے سماجی اور ثقافتی مفاہمت پیدا کرنے کا ایک شاندار موقع فراہم کیا
تبصرے (2) بند ہیں