• KHI: Maghrib 6:49pm Isha 8:06pm
  • LHR: Maghrib 6:23pm Isha 7:45pm
  • ISB: Maghrib 6:29pm Isha 7:54pm
  • KHI: Maghrib 6:49pm Isha 8:06pm
  • LHR: Maghrib 6:23pm Isha 7:45pm
  • ISB: Maghrib 6:29pm Isha 7:54pm

موٹر سائیکل ڈائریز

شائع May 4, 2013

photo1

چودہواں دن: سرائیکی صوبے کو جاتا ناہموار راستہ

جلال پیروالا، اُچ شریف، لیاقت پور، جیٹھا بھٹا، خان پور، رحیم یار خان۔

photo1

جلال پور سے اُچ شریف جانے والا روڈ دو انتہاؤں کے درمیان تقسیم ہے ؛ پہلا نصف حصہ بہت بہتر ہے اور دوسرے نصف کی حالت بہت بری ہے۔ مجھے اس روڈ کی خراب حالت کے بارے میں بتا دیا گیا تھا لیکن پھر بھی میں نے وہاں سے گزرنے کا ارادہ کیا کیونکہ اس طرح میں اندر کے علاقوں تک جاسکتا تھا تاہم وہ میری توقعات سے برا نکلا۔

میں نے کئی جگہ رک کر گدھا گاڑی والوں سے معلوم کیا لیکن ان میں سے کوئی بھی روڈ کی بد ترین حالت سے پریشان نہ تھا۔ وہ نئے تعمیرشدہ حصے کی وجہ سے بے حد خوش تھے اور مجھے تسلی دینے لگے کہ روڈ کا باقی حصہ بھی جلد تعمیر ہوجائے گا۔

وہ پی پی پی حکومت کے اس 'حیرت انگیز' تحفے سے بہت خوش تھے اور پُرامید تھے کہ تکمیل کے بعد اس سے ' علاقے کی قسمت بدل جائے گی۔' جیسے ہی میں سڑک کے دونوں حصوں سے گزرا میں محسوس کرسکتا تھا کہ مقامی آخر کیوں انتے خوش اور شکر گزار ہیں۔

سڑک اہمیت رکھتی ہے۔ روڈ وقت اور توانائی بچا کر لوگوں کی زندگی آسان بناتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسرت، مواقع اور ترقی کے در کھولتی ہے۔ موٹرسائیکل جو بہت سے لوگوں کی اہم سواری ہے صرف ایک اس سے ہی لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی مکمل آزادی مل جاتی ہے ۔

مجھے معلوم ہوا ہے کہ پی پی پی حکومت نے اس قسم کے منصوبوں میں بہت رقم خرچ کی ہے اور یہی اگلے الیکشن میں اس کے امیدواروں کو مضبوط بنیاد فراہم کریں گے۔ لیکن پی پی پی حکومت نے اپنی مدت کے آخری حصے میں سرائیکی صوبے کے معاملے کو بھی بہت نمایاں کیا۔ کیا یہ کچھ ووٹ حاصل کرنے میں مدد کرسکے گا؟ دیگر الفاظ میں کیا کسی سرائیکی کارڈ کا وجود ہے جس کے متعلق پی پی پی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اس سے پنجاب میں نواز لیگ کا زور کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس سڑک کی طرح یہ مسئلہ بھی دو انتہاؤں کے درمیان منقسم ہے۔ ایک الگ صوبے کا مطالبہ یہاں کے عوام کی اپیل ہے۔ میں ان پڑھ اور غریب افراد کے بارے میں تو یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن آپ کو کوئی بھی ایسا نیم خواندہ فرد نہیں ملے گا جو آپ کو تختِ لاہور کی جانب سے سے روا رکھی گئی نا انصافی پر شور نہ مچاتا ہوگا اور مسئلے کا حل الگ صوبے کے طور پر نہ بتائے۔ سرائیکی قوم کے دانشوروں کی جانب سے کیا جانے والا ( الگ صوبے کا مطالبہ) اب بھی موجود ہے۔ یہاں تک کہ اس مسئلے پر سیاسی طور پر دائیں اور بائیں کے طبقے میں بھی کوئی فرق نہیں۔ ہر ایک الگ صوبہ چاہتا ہے۔

میرے پاس اس بحث کی کوئی فیصلہ کن رائے نہ تھی لیکن یہاں میں نے جو مزید مختلف ملاقاتیں کیں ان سے شاید معاملے کو بہترانداز میں سمجھا جاسکتا ہے۔

اگر آپ صوبے کے پرجوش حامیوں سے اس ( صوبہ بننے ) کے بعد فوری اور ٹھوس فوائد پر بات کریں تو ' ہمارے لئے مزید ملازمتوں ' کا پہلا اور فوری جواب موصول ہوگا۔

مختلف محکموں کے صوبائی صدر دفاتر تک فوری رسائی بھی ایک ایسا ہی موصول ہونے والا دوسرا جواب تھا۔

لیکن اگرآپ مزید جاننا چاہتے ہیں تو وہ کوئی واضح جواب نہیں دے پائیں گے اور وہ تختِ لاہور کی جانب سے کی جانے والی ناانصافیوں کی دوسری قسط بیان کرنا شروع کردیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سرائیکی شناخت بیان کی حد تک مقبول اور زبان زدِ عام ہے لیکن اس کے عملی پہلو بہت محدود ہیں۔ انتخابی سیاست تو مفادات اور مراعات سے وابستہ ہے۔

دوسرا اہم پہلو جو میں نے نوٹ کیا کہ پورے سرائیکی بیلٹ میں غیر سرائیکی زبان بولنے والوں کی بہت بڑی تعداد بستی ہے۔ ان کی معاشی حالت عام سرائیکیوں سے بہتر ہے اوروائٹ کالر ملازمتوں میں ان کی اکثریت ہے۔ یہ سب بھی الگ صوبے کے حمایتی ہیں۔ درحقیقت یہ طبقہ نئے صوبے کے قیام کے بعد ذیادہ فائدہ اٹھائے گا اور دراصل انہں (سرائیکیوں کی طرح) سرائیکی شناخت کی ضرورت بھی نہیں۔

سابقہ پی پی پی حکومت نے سرائیکی صوبے کی تحریک کو تقویت دی ہے لیکن مجھے شبہ ہے کہ آیا یہ جنوب میں فتح حاصل کرسکے گی یا محض انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھائے گی ۔ یہ پی پی پی کے ہاتھوں میں ایک کارڈ تو ہے لیکن یہ 'اکا' نہیں ہے۔

گاؤں جیٹھا بھٹہ خان پور سے پہلے آتا ہے جہاں بہت بڑی شوگر مل ہے جو وسطی پنجاب کے ایک بہت بڑے صنتکار کی ملکیت ہے۔ یہ فیکٹری یہاں کی معیشت پر مثبت اثر ڈالتی ہے لیکن مقامی افراد کے بارے میں اس کا رویہ تعصبانہ ہے۔ غالباً اسی مثال سے علاقائی بے چینی محسوس کی جاسکتی ہے۔ میں نے اس موضوع پر فیکٹری کے ایک سابقہ ملازم سے گفتگو کی۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025