تبدیلی کے محرکات
کیا ہمارے مصنفین اور فنکاروں نے اکیسویںں صدی کے مسائل کا مقابلہ کیا ہے؟ کیا انہوں نے ہمارے معاشرے میں انسانی حقوق کے فروغ کے لیے متوقع کردار ادا کیا ہے؟
یہ وہ سوالات تھے جو پچھلے ہفتے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے زیر اہتمام سندھ رائٹرز/ آرٹسٹس کنونشن کے شرکاء کے سامنے رکھے گئے۔
کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جوابات اتنے ہی مختلف اور متضاد تھے، جتنے اس موقعے پر بولنے والے مقررین تھے۔ تاہم اس امر پر اتفاق تھا کہ ہر شہری کو تعلیم حاصل کرنے اور تخلیقی، ثقافتی سرگرمیوں میں شریک ہوکر ان سے لطف اندوز ہونے کا حق ہے۔ ریاست کے لیے اس حق کو تحفظ دینا لازمی قرار دیا گیا۔
یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ملک کے ہر خطے کی اپنی ثقافت اور زبان ہے، ان کا احترام کیا جانا چاہیے اور ان کا استعمال تفرقہ و تصادم کو بڑھاوا دینے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔
تقریب کے اختتام پر جو اعلان پڑھا گیا اس میں بھی بعض مقررین کی جانب سے بیان کردہ اہم ترین اور نمایاں نکتے کا اظہار کیا گیا۔ انہوں نے لکھاریوں، شعرا اور فنکاروں پر اعلیٰ طبقات کی کاسہ لیسی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتیں دیہی علاقوں، محروم طبقوں اور معاشرے کے سیاسی و معاشرتی طور پر پسے ہوئے لوگوں کے حالات پر روشنی ڈالنے کے لیے استعمال کریں۔
یہ چیز خود مباحثے کی متقاضی ہے۔ لکھاری اور فنکار جو عموماًً حساس افراد ہوتے ہیں دیہی معاشرے اور مظلوم طبقات اور ان کے مسائل کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں جنہیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ تخلیقی لکھاری اور فنکار، پرانے زمانے کے درباری شعرا کے برخلاف کسی کے فرمان یا ہدایت کے مطابق کام نہیں کرتے۔ وہ وہی لکھتے یا تصویر کرتے ہیں جو ان کے اخلاقی شعور کو چھوتا ہے اور ان کے تخلیقی عمل کو مہمیز دیتا ہے۔ اسی چیز کو شعرا ’آمد‘ کہتے ہیں، برخلاف ’آورد‘ کے۔ یہی چیز ہے جس کا وہ تجربہ کرتے ہیں اور اس تجربے اور کرب کی یادیں ان کی تخلیق کا محرک ہوتی ہیں۔
چنانچہ اردو کی معروف مصنفہ زاہدہ حنا نے بتایا کہ واقعے کے بعد اس کا تجربہ کرنے، اسے جذب کرکے اپنی تخلیق میں اس کا اظہار کرنے میں مصنف کو کچھ وقت لگتا ہے۔ بعض اوقات اس میں بہت وقت صرف ہوتا ہے خاص طور پر جب طاقتور جذبوں کا معاملہ ہو۔ اس کی ایک مثال واقعے کے چالیس سال قبل شائع ہونے والی دو کتابیں ہیں جس کا مصنفین کی زندگیوں پر گہرا اور شدید اثر ہوا۔ ایک عقیلہ اسماعیل کی ’آف مارٹرز اینڈ میریگولڈ‘ (شہداء اور صدبرگ) اور دوسری ریحانہ حسن کی ’سپس فرام اے بروکن ٹی کپ‘ (چائے کی پیالی سے چسکیاں) ہے۔
یہ دونوں کتابیں مشرقی پاکستان میں لکھنے والیوں کی زندگی کی کہانیاں ہیں اور ان میں 1971-72ء کے واقعات کا دلدوز تجربہ بیان کیا گیا ہے۔ عقیلہ کہتی ہیں کہ وہ چار دہائیوں بعد اس قابل ہوئیں کہ کاغذ پر دل پر لگے ہوئے زخموں کو رقم کرسکیں۔
مقررین میں فنکاروں فتح داؤد پوتو اور خدا بخش ابڑو اور لکھاریوں نورالہدیٰ شاہ اور نذیر لغاری کی اس بات میں وزن تھا کہ سندھ اور بلوچستان کے دردناک واقعات کا ملک کے اصل دھارے کے ادب میں باکفایت اظہار نہیں ہوا۔ پاکستان میں ترجمے کی صنف کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اس لیے زبان کی خلیج پُر کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر امر سندھو نے اپنی سندھی شاعری کا اردو میں ترجمہ کرکے اور اسے اصل متن کے ساتھ شائع کرکے مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کے لیے عظیم خدمت سرانجام دی ہے۔
افسوسناک ہے کہ سندھ میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر صرف سندھی مصنفین لکھ رہے ہیں۔ اردو میں لکھنے والے اپنے صوبے اور بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات سے اس قدر کٹے ہوئے ہیں کہ ان کی تخلیقی تحریک انہیں سندھیوں اور بلوچوں کے مصائب پر لکھنے کے لیے نہیں اکساتی۔
صحافیوں کے برخلاف جو کسی جگہ جاتے ہیں، ادھر اُدھر دیکھتے ہیں، لوگوں سے بات کرتے ہیں اور لکھتے ہیں، تخلیقی لکھاریوں کو عوام کی اذیتوں کا نباض ہونا چاہیے اور انہیں اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے درد میں ڈوب کر لکھنا چاہیے۔ اس لیے یہ بڑی تشویش کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں تفرقہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگئے ہیں۔ اس صورتحال کے ملک پر بہت منفی اثرات پڑرہے ہیں۔ عوام کی افقی اور عمودی تقسیم کی وجہ سے ہمارے اہم لکھنے والوں کی تحریر میں عوام کی تکالیف کا نشان نہیں ملتا۔ چونکہ لکھنے والا ان لوگوں کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے جن کے بارے میں لکھتا ہے اس لیے اسے ان کے بارے میں معلومات ہونی چاہئیں– ان کے طرز زندگی، ان کے معاشرتی و معاشی مسائل، کلچرکے بارے میں– اور اسے براہ راست ان کی محبتوں اور دکھوں کا تجربہ ہونا چاہیے۔
مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی پس منظر کے حامل افراد کے درمیان میل جول اور ارتباط کی ہنگامی ضرورت ہے۔ اسی طرح سے دور دراز علاقوں کے رہنے والوں کی کہانیاں قومی سطح پر سنی اور سنائی جاسکیں گی۔ بے شک فنکاروں نے اپنے کینوس پر بہت سے مسائل اجاگر کیے ہیں جو معاشرے کے ایک محدود طبقے تک محدود ہیں جیسے عزت کے نام پر قتل۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جذبات کو ہلانے والی چیز کو علامتی طور پر تصویروں میں ڈھالا جاسکتا ہے بشرطیکہ فنکارانہ جبلت کو کافی تحریک مل جائے۔
آرٹ کی ناقد نیلوفر فرخ نے کلچر کو ہیئت قلبی کی قوت قرار دیتے ہوئے لکھنے والوں اور فنکاروں کی طاقت کو بہت اچھی طرح بیان کیا۔ مصنفین، شعرا اور فنکاروں کا مطمح نظر یہی ہونا چاہیے کہ وہ معاشرے میں تبدیلی کے محرک بنیں۔ موسیقی کا بھی ایسا ہی اثر ہوسکتا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان جس نے اس انجانے میدان میں قدم رکھ ریا ہے اس جدوجہد کو مزید آگے لے جائے گا۔ انسانی حقوق کے بارے میں ہر سطح پر بہت آگہی دیکھی جارہی ہے۔ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ پیش رفت تبھی ممکن ہے کہ آگہی کے ساتھ اختیار بھی ہو۔ اگر ترقی یکساں نہ ہو تو یہ ممکن نہ ہوگا۔ اگر زندگی کے ایک شعبے میں نمو ہو اور دوسرے میں پسماندگی تو مایوسی پیدا ہوگی یا الجھن۔
http://www.zubeidamustafa.com/urdu/