• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

اصلاحات اراضی کیوں نہیں؟

شائع May 4, 2013

فائل فوٹو --.

بعض سیاسی پارٹیاں ایک نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کر رہی ہیں جبکہ بعض پارٹیاں دوبارہ ویسا ہی پاکستان بحال کرنے کا یقین دلا رہی ہیں جس کا خواب دیکھا گیا تھا- وعدہ بہرحال سبھی پارٹیوں کا یہی ہے کہ وہ بنیادی تبدیلیاں لے کر آئینگی- یعنی اس بار کے انتخابات میں کوئی بھی حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنے کی بات نہیں کر رہا ہے-

اگر بعض پارٹیوں کی یہ خواہش ہو بھی کہ حالات کو جوں کا توں رکھا جائے تب بھی عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے وہ تبدیلیوں کے وعدے کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی تک کسی پارٹی نے بھی زرعی اصلاحات کو اپنے منشور کا بنیادی ہدف نہیں بنایا ہے-

کیا ہم ملک میں زمین کی سیاست کو بدلے بغیر، خواہ اس کا تعلق دیہات سے ہو یا شہروں سے، پاکستان میں بنیادی تبدیلیوں کی بات کر سکتے ہیں؟ بعض لوگ اب یہ کہتے نظر آتے ہیں کے پاکستان میں اب جاگیرداری باقی نہیں رہی- اور شائد ان کا کہنا درست بھی ہو، اگر جاگیرداری معاشرے کی تعریف، نظام پیداوار کے طرز یا پیداواری اثاثوں کی ملکیت کے معنوں میں لی جائے تو آج پاکستان میں زمینداری نہیں ہے- لیکن زمین اور اقتدار کا گٹھ جوڑ آج بھی بہت مضبوط ہے-

بعض ذات برادریوں اور طبقات کیلئے زمین کا خریدنا اور فروخت کرنا ناممکن ہے- زمین کے مالکانہ حقوق کا تعلّق بہت ساری اہم خدمات سے ہے- اور مقامی سطح پر یعنی پولیس، عدالت اور افسر شاہی کی سطح پر، زمینداروں اور ریاست کی مختلف سطحوں پرہمیں واضح تعلّق نظر آتا ہے- تو ایسی صورت میں کیا زمینوں کی خرید و فروخت کے مسئلہ کے تعلّق سے اصلاحات اہمیت نہیں رکھتے؟

ملک کے بعض حصوں میں بڑی بڑی زمینداریاں اب بھی مسئلہ ہیں اور یہ ضروری ہے کہ ہم اس مسئلہ کا جائزہ لیں- لیکن اصلاحات آراضی کے معاملے میں صرف غوروفکر ہی کافی نہیں ہے-

اصلاحات آراضی کا مطلب ہے کہ زمینوں کی خریدوفروخت کی منڈی کو سب کیلئے کھول دیا جائے تاکہ جس شخص کی بھی استطاعت ہو، خواہ اس کا تعلّق کسی بھی طبقے یا ذات برادری سے ہو، جب بھی زمین دستیاب ہو، اسے خرید سکے- مثلاً سرکاری زمینوں کو پیداواری استعمال کیلئے قابل حصول بنانا، فوجی یا سرکاری زمینوں کو کم کرنا یا انہیں ختم کرنا، انتشار آراضی کو ختم کرنا، زمینوں کے ریکارڈز کو زیادہ موثّر طریقے سے تیار کرنا تاکہ پٹواری کا رول کم سے کم ہوجائے یا بالکل ہی ختم ہوجائے- زمینوں کی ملکیت کا تازہ ترین اندراج تاکہ مارکیٹ میں زمینیں ہمیشہ موجود ہوں اور زمینداروں یا ریاستی اداروں مثلاً پولیس، مقامی عدالتوں اور سیاست کے درمیان قائم گٹھ جوڑ کو توڑا جاسکے.

غربت کو ختم کرنے کا ایک موثر ترین طریقہ یہ ہے کہ پیداواری اثاثوں کو غریبوں میں تقسیم کر دیا جائے- دیہی علاقوں میں جہاں غریبوں کی اکثریت زراعت سے پہلے ہی سے وابستہ ہے، یا جہاں ان کی افرادی قوت موجود ہے غریبوں کو زمین یا مویشی فراہم کرنا قابل فہم طریقہ ہے- غربت کی موجودہ شرح کو پیش نظررکھتے ہوئے کیا ہم یہ نہیں سوچ سکتے ہیں کہ ان میں زمین تقسیم کردی جائے یا زمینوں کی از سر نو تقسیم کی جائے؟

بڑی پارٹیوں نے اپنے منشوروں میں یا تو اس مسئلہ کو بالکل نظرانداز کر دیا ہے یا ان کا محض سرسری ذکر کیا ہے- پی پی پی نے تو اس مسئلہ پر نظر ہی نہیں ڈالی حالانکہ یہ پی پی پی ہی تھی جس نے 1972 میں اصلاحات آراضی کیلئے قانون سازی کی تھی- پی ایم ایل ن نے صرف کمپیوٹرائزیشن اور اشتمال آراضی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی-

پاکستان تحریک انصاف اگرچہ غریبوں کو سرکاری زمینیں دینے اور ریکارڈ وغیرہ کی کمپیوٹرائزیشن کا وعدہ کرتی ہے جس کا وعدہ دیگر پارٹیاں بھی کرتی ہیں- لیکن ان کا وعدہ صرف یہی ہے کہ وہ اصلاحات آراضی کے موجودہ قوانین پرعمل درآمد کرینگی-

لیکن موجودہ قوانین میں ایک مسئلہ ہے- سپریم کورٹ کے ایک شریعت اپیل بنچ نے جو تین ججوں اوردو علماء پر مشتمل تھا یہ فیصلہ سنایا کہ زمینی اصلاحات غیراسلامی ہیں- یہ فیصلہ اس اپیل کے نتیجے میں سنایا گیا تھا جو وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلہ کے بعد کی گئی تھی-

اگر پارٹیوں کا وعدہ یہ ہے کہ موجودہ قوانین پرعمل درآمد کیا جائیگا اور اپیل کی سماعت کرنے والی کورٹ کا فیصلہ یہی رہتا ہے، جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ عدالت کی نظروں میں اصلاحات آراضی کی تعریف کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اصلاحات آراضی کا قدم اٹھانا ممکن نہیں- ضرورت اس بات کی ہے کہ اپیلٹ کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کیا جائے اور اس کی دوبارہ سماعت کی جائے- یہ متفقہ فیصلہ نہیں تھا (ایک جج نے اختلاف کیا تھا اور اپیل خارج کردی تھی) اور خود اصلاحات آراضی کے مقدمات میں شریعت بنچ کے اختیارات سے متعلّق بھی تحفظات ہیں- اس سے پہلے کورٹ نے اس مقدمے کو خارج کر دیا تھا-

لیکن اس بات کو تسلیم کرنا انتہائی مشکل ہے کہ ہم کسی ایسے معاملے کو بالائے طاق رکھ دیں جس کا تعلق مساوات، سماجی انصاف اور سماجی ہم آہنگی سے ہو، محض اسلئے کہ یہ عدالت کا ایک کمزور فیصلہ تھا، جبکہ خود بنچ کے سربراہ نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ عدالت کی اس مقدمے میں مناسب معاونت نہی کی گئی-

کیا واقعی اسلام اصلاحات آراضی کو غیر اسلامی تصور کرتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں؟ کیا اسکا تعلق نجی ملکیت پر ریاستی حاکمیت قائم کرنے سے ہے؟ کیا یہ کلیہ تمام حالات میں درست ہے؟

تو پھر ان امور کے بارے میں کیا کہا جائیگا جو حلال نہیں ہیں یا پھر مذہبی بنیادوں پر قابل قبول نہیں ہیں؟ اگر ریاست نجی املاک کو خرید کر اسے غریبوں میں تقسیم کر دیتی ہے تو کیا اسے قبول کرلیا جائیگا؟ کیا یہ اس صورت میں بھی قابل قبول ہوگا اگر حکومت ان املاک کو مارکیٹ کی قیمت پر خریدے؟ یا یہ کہ اگر قیمت مارکیٹ کی قیمت سے کم ہو تو یہ قابل قبول نہیں؟

اصلاحات آراضی کے دیگر معاملات جن کا تعلق پٹواری کے رول کو کم کرنے، اشتمال آراضی اور انتقال آراضی سے ہے، زمین کی ملکیت کے معاملات کو تازہ ترین سطح پر رکھنے سے ہے، اسلامی نقطہء نظر سے کم متنازعہ ہیں- تمام پارٹیاں ان امور کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنا سکتی ہیں اور انھیں ایسا کرنا بھی چاہئے-

مذکورہ بالا امور سے قطع نظر، کسی پارٹی نے بھی اصلاحات آراضی کو اپنے منشور کا اہم حصہ نہیں بنایا ہے اور نہ ہی ان کی انتخابی مہموں میں اس کا ذکرہوتا ہے- کیا یہ چیز زمیندار طبقہ کی قوت کی عکاسی کرتی ہے؟ کیا اب بھی یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ کیوں اہم ہے؟ کیا یہ ہماری جمہوریت کی کمزوری کو ظاہر نہیں کرتا کہ ملک میں غریبوں کی بھاری اکثریت کے باوجود اتنا اہم مسئلہ قومی سطح کی پارٹیوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے-

سپریم کورٹ میں ایک درخوست موجود ہے جس میں اپیلیٹ کورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کیا گیا ہے- ہم توقع کرتے ہیں کہ عدالت اس درخوست کی جلد ہی سماعت کریگی- ہمیں امید ہے کہ نئی تشکیل پانے والی حکومت، اکثریت کے مفاد میں اس درخواست کی حمایت کریگی اور اصلاحات آراضی کیلئے اقدامات کرنے کے مطالبے کو تسلیم کریگی-


ترجمہ . سیدہ صالحہ

فیصل باری

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] اور [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

عابد شکیل فاروقی May 04, 2013 07:37pm
یقینا اصلاحات آراضی کا اشو بہت اہم اشو ہے ، مگر جیسا کہ اس کالم میں کہا گیا ہے کہ کسی پارٹی نے بھی اپنے منشور میں اس حوالے سے اپنا کوئی نقظہء نظر نہیں دیا جس سے یہ بات سو فیصدی صابت ہوتی ہے کہ تبدیلیوں کے حوالے سے ، موجود سیاسی پارٹیاں کس حد تک اپنے دعووں میں مخلص ہیں ، لیکن یہاں ایک گلہ ہے کہ آپ نے اس پارٹی کا نام لینا بھی ضروری نہیں سمجھا جس نے شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے ، وہ پارٹی ہے ورکرز پارٹی پاکستان ،(موجودہ ،"عوامی ورکرز پارٹی)

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024