• KHI: Sunny 25.7°C
  • LHR: Sunny 19.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 17.4°C
  • KHI: Sunny 25.7°C
  • LHR: Sunny 19.4°C
  • ISB: Partly Cloudy 17.4°C

پانچواں دن: رانجھا دیس کی محرومیاں

شائع April 25, 2013

پانچواں دن: رانجھا دیس کی محرومیاں

(تصاویر بڑی کرنے کے لیے کلک کریں)

مقامات: ربوہ، تخت ہزارہ، میانہ گوندل، پنڈ مکو، میانی، بھیرہ

تخت ہزارہ گاؤں میں قیام کرنے کی میرے پاس دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ یہ پنجابی رومانوی لوک داستان 'ہیر رانجھا' کے ہیرو کا گاؤں تھا اور مجھے اس عظیم عاشق کا گھر دیکھنے کا اشتیاق تھا۔

لیکن تصور کو حقیقت سے ملانا کبھی بھی ایک اچھا خیال نہیں رہا، اور میں نے اپنی امیدیں اس حد تک بڑھا لی تھیں کہ مجھے بالآخر شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس گرد آلود مفلس گاؤں میں ماضی کے کوئی نشانات موجود نہیں، سواۓ چند ایک چھوٹے عمارتی ڈھانچوں کے، جو کہیں بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔

اوپر سے اس گاؤں میں مجھے رانجھا کے گاؤں والی کوئی بات نظر نہیں آئی، کم ز کم ایک آدھ یادگار تو ہونی چاہیے تھی، چاہے سادہ اور چھوٹی ہی کیوں نہ ہوتی۔

میرے یہاں رُکنے کی دوسری وجہ کا بھی وہی حال ہوا جو پہلی کا ہوا تھا۔ اب تک میرا گزر جن مختلف انتخابی حلقوں سے ہوا وہاں سیاست پر ان برادریوں کا بہت زیادہ اثر و رسوخ دیکھا جو 1947ء میں انڈین پنجاب سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے اور مجھے ان سب میں کچھ مشابہت بھی محسوس ہوئی تھی۔

اب میرا مقصد ایسے انتخابی حلقوں کو دیکھنا تھا جہاں کے رہنماؤں کے آباؤ اجداد وہیں کے باسی تھے۔

میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کس طرح اور کس حد تک باقی سب سے مختلف ہیں۔ اس طرح مجھے پاکستان ہجرت کرنے والے سیاسی خاندانوں کے انتخابات اور رویوں پر اپنے مفروضوں کا موازنہ کرنے میں مدد ملتی۔

میرا خیال تھا کہ یہ گاؤں جو کہ دریاۓ چناب کے دائیں کنارے پر آباد ہے، ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہوگا اور یہاں تقسیم سے پہلے کے باشندوں کی اکثریت ہوگی۔

لیکن گاؤں کے ایک ریٹائرڈ استاد ماسٹر جمیل نے بتایا کہ یہاں اکثریت مہاجروں کی ہے جو خود کو قصائی کہتے ہیں۔

یہ لوگ دریا کے کنارے آباد چرواہوں سے مویشی خریدتے ہیں اور ان کو دوسرے شہروں کے گوشت کے تاجروں کو فروخت کر دیتے ہیں۔

photo24

کہتے ہیں کہ آپ کو دوسروں کے اعمال نہیں بلکہ اپنی اُمیدیں ناکام بناتی ہیں، چنانچہ اس خواری کے بعد میں نے اصلی تخت ہزارہ جانے کا ارادہ کیا اور یہ بھی کوئی خوش کن ملاقات نہیں تھی۔

تخت ہزارہ خود اپنے آپ سے بھی اتنا ہی نالاں تھا جتنا میں اسے دیکھ کر ہوا۔

لاہور-اسلام آباد موٹروے اس گاؤں کے پندرہ کلومیٹر دور سے ہو کر گزر گئی۔ ایک عرصے سے اس علاقے کا گزر بسر زمینداری رہی ہے۔

موٹروے کی وجہ سے ان لوگوں کو بہت سے نئے معاشی مواقع مل سکتے تھے لیکن یہ اسی صورت ممکن تھا کہ اگر موٹروے اس علاقے کے تھوڑا اور قریب سے گزرتی۔

چنانچہ کچھ لوگ خوش قسمت رہے اور باقی آج تک افسوس کے ساتھ ہاتھ مل رہے ہیں۔

سن 2000 میں اس گاؤں کی بدقسمتی نے ایک اور رُخ اس وقت بدلا جب گاؤں میں احمدی مخالف دنگے پھوٹ پڑے۔

ان فسادات میں گاؤں کے چھ لوگ مارے گئے جبکہ دوسری پارٹی کے چھ لوگوں کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ بہت سے کاروبار بند ہوئے اور لوگ دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔

ایک بار پھر ایسا ہوا کہ سیال- پھلیاں روڈ جو کہ موٹروے پر واقع سیال انٹرچینج کو قصبہ پھلیاں ( یہ علاقہ گجرات اور منڈی بہاءُالدین جیسے شہروں کو ملانے والی سڑکوں کا سنگم ہے ) سے ملاتی ہے، اس گاؤں کے پاس سے ہو کر گزر گئی۔

یہ روڈ ہلال پور سے ہو کر گزرتی ہے جس کے بارے میں تخت ہزارہ کے باسیوں کا خیال ہے کہ وہ ترقی کر رہا ہے۔

اس گاؤں کا صرف ایک سیاسی مطالبہ ہے کہ دریائے چناب پر ایک پل بنایا جائے جو وزیرآباد روڈ کو سیال پھلیاں روڈ سے ملا دے۔

یہ دونوں سڑکیں دریا کے الگ الگ کناروں پر ایک دوسرے کے متوازی چل رہی ہیں اور گاؤں والوں کا خیال ہے کہ پل بنانے سے گاؤں کی کھوئی ہوئی رونقیں واپس آجائیں گی۔

اپنے اس مطالبے کے لیے وہ صرف ایک شخص پہ بھروسہ کر سکتے ہیں اور وہ ہیں 'سڑکوں کے بادشاہ' نواز شریف۔

رانجھا کا گاؤں
رانجھا کا گاؤں

صبح میں نے ناشتہ چار فوجی جرنیلوں کے زیر سایہ کیا۔ دراصل یہ چار بڑی بڑی تصویریں تھیں جو کہ چنیوٹ میں واقع ایک حلوہ پوری کی دکان کی دیوار پر آویزاں تھیں۔

یہ ایک تاریک مقام تھا جہاں لوڈشیدڈنگ کے باعث تاریکی مزید بڑھ گئی تھی، اسی لئے میں کوئی تصویر نہ بنا سکا۔

وہ تصاویر ایوب خان، ضیاء الحق، نور خان اور موسیٰ خان کی تھیں، یہ ایک جرأت مندانہ سیاسی اظہار تھا لیکن دکان چلانے والا نوجوان اس حوالے سے کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتا تھا۔

سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی نامزدگی کو حتمی صورت دینے کے بعد امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم بھی شروع کر دی ہے۔

چائے پیتے ہوئے میں نے چائے خانے پر بیٹھے لوگوں کے منہ سے امیدواروں کے خلاف نازیبا کلمات بھی سنے۔

دو بھائی مناظر علی رانجھا اور مظہر علی رانجھا مسلم لیگ نون کی ایک ہی سیٹ کے ٹکٹ کے لیے ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔

اور آخر میں جس بھائی کو ٹکٹ ملا اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے غریب بھائی کے مقابلے میں پارٹی کو زیادہ 'چندہ' دیا ہے۔

ایک جگہ یہ گفتگو بھی سننے میں آئی کہ بعض امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم چلانے والوں کو دو لاکھ روپے نقد اور ستر سی سی موٹر سائیکل کے پیکیج کی پیشکش کی ہے۔ ویسے ایک مہینے کی محنت کے لیے یہ سودا بُرا نہیں اور موٹر سائیکل ڈائریز کرنے سے زیادہ مشکل کام تو ہرگز نہیں ہونا چاہئیے۔

آج کل پیسہ بہت ہی گرما گرم موضوع ہے اور مجھے یقین ہے کہ جب پیسوں سے متعلق اس طرح کی خبریں ایک شخص سے دوسرے شخص تک پہنچتی ہیں تو لوگ اپنی طرف سے ایک آدھ صفر کا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

photo44

بھابھڑا گاؤں کا چکر لگانے کا بعد میں میانہ گوندل پہ رکا۔ اب میں ایک دوسرے انتخابی حلقے میں تھا اور چاہتا تھا کہ گاؤں کے ایک جلسے میں شرکت کر سکوں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جلسہ کب اور کہاں ہوگا اس کا پیشگی علم نہیں ہو سکتا تھا۔

میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے ایک کارکن سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے مختصر طور پر انتخابی مہم دیکھنے کے لیے ساتھ لے چلے۔

اس نے شروع میں تو کچ آمادگی ظاہر کی لیکن بعد میں دھوکہ دے گیا۔

ایک اور کارکن نے مجھے مشورہ دیا کہ میں پنڈ مکو میں واقع اس امیدوار کے ڈیرے پر چلا جاؤں۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہ بھی مجھے خالی پڑا ملا۔

سب لوگ پہلے ہی مہم کے سلسلے میں وہاں سے جا چکے تھے۔ میں نے پھر کچھ لوگوں کو ٹیلی فون کیا لیکن وہ بھی مجھے کوئی واضح طور پر رہنمائی نہیں دے رہے تھے۔

کسی نے مجھے بتایا کہ میانی گاؤں میں ایک جلسہ ہو رہا ہے لیکن جب میں وہاں پہنچا تو جلسہ ختم ہو چکا تھا۔

جس پر میں نے آج کی مہم ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔

مجھے مشورہ دیا گیا تھا کہ میں چور ڈاکوؤں سے خطرے کے پیش نظر کالا- بھیرہ روڈ پہ سفر نہ کروں بلکہ پنڈ مکو سے بھیرہ جانے کے لئے میانی گاؤں والا لمبا مگر محفوظ راستہ اختیار کروں۔ اس وقت گہری تاریکی چھا چکی تھی اور وہ تنگ راستہ بالکل سنسان تھا۔

پنڈ مکو: این اے - 64 سے پی پی پی کے امیدوار ندیم افضل چن کا ڈیرہ
پنڈ مکو: این اے - 64 سے پی پی پی کے امیدوار ندیم افضل چن کا ڈیرہ

مجھے اس سے کہیں زیادہ فکراس بات کی تھی کہ جو میں حاصل کرنا چاہتا ہوں شاید حاصل نہ کر پاؤں۔

میں لوگوں کی ہچکچاہٹ کی وجہ جاننے میں ناکام رہا تھا کہ آخر کیوں وہ میری مدد کرنے کو تیار نہیں۔

اگلی صبح ایک اور امیدوار کے کارکنوں نے اپنی سیاسی مہم پر لے چلنے کی حامی بھرنے کے باوجود وعدہ خلافی کی۔

اس موقع پر ایک پرانے کارکن نے میری مدد کی اور کہنے لگا، میں آپ کو خالصتاً جٹوں کے انداز میں بتاتا ہوں کہ ان لوگوں کو میرے ارادوں پر تشویش ہے۔

'وہ بمشکل آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کی جانچ سے نکلے ہیں اور نہیں چاہتے کہ مہم کے دوران ہونے والے انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ ہو اور وہ کسی نئی مصیبت میں پڑ جائیں'۔

مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ضابطوں کی خلاف ورزی تو ہر کوئی ہر جگہ کر رہا ہے ، لیکن کیا کوئی اس پر نظر بھی رکھ رہا ہے ؟

میانی- بھیرہ روڈ پر کافی بڑی بڑی اینٹوں کی بھٹیاں ہیں۔ میں ان میں سے ایک پر رُکا اور ایک بےجا مداخلت کرنے والے منشی کے مستقل مسلط رہنے کے باوجود وہاں کے مفلس مزدوروں کے بارے میں کچھ معلومات لینے میں کامیاب رہا۔

ان لوگوں کو بہت کم اُجرت ملتی ہے اور وہ یہاں سے کہیں جا بھی نہیں سکتے کیوں کہ یہ لوگ بھٹہ مالکان کے مقروض ہیں۔

بھٹہ مالکان اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ یہ مزدور ایک جگہ زیادہ عرصہ ٹک نہ پائیں کیونکہ اس طرح ان کا دوسروں سے میل جول ان مالکان کے حق میں بہتر نہیں ہوتا۔

photo72

photo62

چونکہ یہ مزدور ایک جگہ مستقل نہیں رہتے اس لیے یہ اپنا حق رائے دہی بھی استعمال نہیں کر سکتے۔

لیکن اس سے بھی بڑا اور گمبھیر مسئلہ شناختی کارڈ کا ہے۔

ہر گزرتے دن کی ساتھ مجھے نادرا کی لاعلمی یا اس کے عملے کی سنگدلی کے شواہد ملتے ہیں، جنہوں نےغریبوں کو ان کے شہری ہونے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے بنیادی حق سے محروم کردیا ہے۔

اگر ایک شخص کو قانونی طور پر شہری بنانے کے لیے یہ کارڈ اتنا ہی ضروری ہے تو کیا یہ نادرا کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ہر شخص کے لیے یہ کارڈ جاری کرے؟

موجودہ قانون کے مطابق نادرا کی یہ ذمہ داری ہے کہ صرف اسی درخواست گزار کو کارڈ کا اجرا کرے جو ایک مخصوص کسوٹی اور طریقہ کار پر پورا اترتا ہو۔

اور اگر کوئی ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ ارباب اختیار کا درد سر نہیں بلکہ یہ درخواست گزار کا مسئلہ ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ذمہ داری کا یہ بوجھ نادرا کے کاندھوں پر ڈالا جائے اور اسے پابند کیا جائے کہ وہ اس حوالے سے درپیش قانونی مشکلات کا حل تلاش کرے۔

اینٹوں کی بھٹی پر کام کرنے والے اس خاندان کے چار ووٹ ہیں، یہ کیا کہنا چاہتے ہیں ذرا دیکھتے ہیں۔

ترجمہ: ناہید اسرار

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025