• KHI: Maghrib 6:49pm Isha 8:06pm
  • LHR: Maghrib 6:23pm Isha 7:45pm
  • ISB: Maghrib 6:29pm Isha 7:54pm
  • KHI: Maghrib 6:49pm Isha 8:06pm
  • LHR: Maghrib 6:23pm Isha 7:45pm
  • ISB: Maghrib 6:29pm Isha 7:54pm

چوتھا دن: ربوہ - عینی شاہد

شائع April 24, 2013

چوتھا دن: ربوہ - عینی شاہد

(تصاویر بڑی کرنے کے لیے کلک کریں) number-11 ننکانہ صاحب سے ایک سڑک سیدھی شاہ کوٹ کو جاتی ہے اور میرا یہ سفر کچھ خاص نہیں تھا۔

دراصل، میں نے اپنا سفر کچھ دیر سے شروع کیا تھا اور مجھے سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے اپنے اگلے پڑاؤ پر پہنچنے کی جلدی تھی۔

شاہ کوٹ سے آگے کھریاں والا تک راستہ تو اور بھی صاف ہے۔

یہاں کے مقامی اس سڑک کو 'موٹر وے' کہتے ہیں کیونکہ یہ چار لین کی بہت عمدہ اور آرام دہ روڈ ہے جس کے درمیان میں ایک چھوٹی سی گرین بیلٹ بھی موجود ہے۔ photo33 سڑک کے اطراف جابجا صنعتی کمپلیکس پھیلے ہوئے ہیں، جن میں سے بعض تو کئی کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہیں، لیکن آپ کو یہاں روایتی صنعتی علاقوں کی طرح رونق نظر نہیں آتی۔

سڑک کے اطراف دیہات بھی خاموش اور پُر سکون دکھائی دیتے ہیں۔

اس سڑک پر مختلف صنعتوں کی وجہ سے فضا میں ہر وقت ناگوار بُو کا راج رہتا ہے اور اگر آپ کا یہاں سے گزر ایک معمول ہے تو مختلف اقسام کی بو سے آپ باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کس علاقے میں موجود ہیں۔

کھریاں والا بذات خود ایک حیران کر دینے والی جگہ ہے کیونکہ جب آپ یہاں پہنچتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کسی بڑے شہر کے ایک بڑے چوک پر پہنچ گئے ہیں۔

یہ علاقہ پاکستانی ٹیکسٹائل کا دارالحکومت سمجھے جانے والے فیصل آباد کے قریب ہے اور اس چوک پر چھ بڑی سڑکیں آن ملتی ہیں۔ photo43 اس علاقے کے استحکام کے پیچھے کھریاں والا سے چک جھمرہ تک جانے والی طویل سڑک کا کافی ہاتھ ہے۔

علاقے میں لیبر باآسانی کم معاوضہ دستیاب ہے، لہٰذا بڑی صنعتیں اپنی حدود میں بہت سے پیدواری کام کرانے کے بجائے انہیں اس علاقے میں پھیلے کئی چھوٹے شیڈز کو آؤٹ سورس کر دیتے ہیں۔ photo23 میری جس مزدور سے بات چیت ہوئی وہ دھاگے سے کپڑے بننے کے عمل کے صرف پہلے حصے میں مہارت رکھتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بڑی صنعتیں بطور ایکسپورٹر کئی طرح کے قوانین کے پابند ہوتے ہیں، لہٰذا وہ بغیر کسی جنجال میں پڑے باکفایت انداز میں ان چھوٹے شیڈز سے کام کرانے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں کسی قسم کے قوانین کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔

اس طریقے سے وہ لیبر قوانین اور کم از کم معاوضوں کی پابندیوں سے بھی بچ جاتے ہیں۔

یہ شیڈز مزدوروں کو کام مکمل کرنے کے حساب سے پیسے دیتے ہیں اور اس طرح انہیں دن بھرکام کے اوقات کار کی پابندیوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔

چھوٹے شیڈز کو کام دینے سے صنعتیں اپنی حدود میں لیبر یونینز کے درد سر سے بھی بچ جاتی ہیں۔

ان صاحب کو لیبر یونینز اور ان کی سیاست کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔

چک جھمرہ سے آگے چنیوٹ تک کا سفر بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ اس سڑک پر جا بجا گڑھے آپ کے سفر کو بدمزہ کرتے ہیں لیکن میں کسی نہ کسی طرح شام ہونے سے پہلے پہلے ربوہ پہنچ ہی گیا۔

ربوہ کو چنیوٹ سے دریائے چناب علیحدہ کرتا ہے۔ پچھلے دو دنوں میں، میرا گزر دو مختلف فرقوں کے ٹاؤنزسے ہوا ہے۔

پنجاب کے ان دونوں علاقوں میں سگریٹ نوشی سے نفرت پائی جاتی ہے۔

ربوہ میں انسداد سگریٹ نوشی کے سائن اور سلوگن جا بجا ہر عوامی جگہوں پر نظر آتے ہیں۔

میں جب دو دہائیوں پہلے ربوہ آیا تھا تو یہ ایک ٹوٹے ہوئے خواب کی مانند لاوارث علاقہ تھا۔

آج ربوہ احمدیوں کو سیاست اور سماجی دھارے سے نکال باہر کرنے کا عینی شاہد ہے۔

میں جب یہاں آیا توکہیں زیادہ خراب حالات کے اندیشوں میں گھرا ہوا تھا لیکن صورتحال اس سے برعکس تھی۔ photo13 قیام پاکستان کے بعد جماعت احمدیہ نے اس علاقے کا بڑا حصہ حاصل کرتے ہوئے یہاں اعلٰی منصوبہ بندی کے ساتھ شہر بسانا شروع کیا۔

اس جماعت کا خیال تھا کہ وہ یہاں ایک ماڈل اسلامی شہر بنا سکی گے جہاں ان کے فرقہ کا ہیڈ کواٹر بھی ہو گا۔

لیکن ان کی خواہشات کو جلد ہی ایک بڑے بڑے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اس صورتحال میں جماعت نے طوفان تھمنے تک انتظار کرنے کا فیصلہ کیا، شاید ان کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورتحال بدل جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔

قانونی اعتبارسے 2002 میں مشترکہ الیکٹوریٹ نظام کی بحالی کے بعد، احمدیوں کو بھی دوسرے شہروں کی طرح ووٹننگ کے مکمل حقوق حاصل ہو گئے ماسوائے یہ کہ ان کی انتخابی فہرستیں علیحدہ ہوتی ہیں۔

ہماے موجودہ انتخابی نظام میں دو طرح کی ووٹر فہرستیں ترتیب دی جاتی ہیں، ایک احمدیوں کے لیے اور دوسری مسلمانوں، عیسائیوں، ہندؤں اور دوسروں کے لیے۔

اس مضحکہ خیز اور بے سروپا طریقہ کار کا غالباً مقصد یہ ہے کہ احمدیوں کی تضحیک جاری رکھی جا سکے۔

خود کو بطورغیر مسلم رجسٹرڈ کرانے سے انکار کے بعد احمدی اپنے ووٹنگ حقوق سے دستبردار ہو چکے ہیں۔

اسی لیے یہاں ربوہ میں الیکشن مہم کے آثار نظر نہیں آتے اور لوگ اس حوالے سے گفتگو میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔

ان کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور وہ اس خراب صورتحال کو قبول کر چکے ہیں۔ یہاں کے بہت سے لوگ دوسرے ملکوں میں ہجرت کر چکے ہیں اور وہاں اچھی زندگی جی رہے ہیں۔

ربوہ کی مایوسی پردیس جانے والے احمدیوں کے غیر ملکی زر مبادلہ کی چکا چوند کے پیچھے چھپ گئی ہے۔

دوسری جانب، چنیوٹ میں خالصتاً پنجابی انداز میں الیکشن مہم شروع ہو چکی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک ایک ہی حلقے میں پارٹی ٹکٹوں کے حصول میں کوشاں امیدوار اپنے پوسٹرز پر بڑے بڑے حروف میں انشاءاللہ لکھتے تھے۔

تاہم وہ خوش نصیب جنہیں پارٹیوں کے ٹکٹ مل گئے ہیں، اب ان کے پوسٹرز پر انشاءاللہ کے بجائے ماشاءاللہ لکھا نظر آتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025