• KHI: Partly Cloudy 25°C
  • LHR: Clear 19.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 25°C
  • LHR: Clear 19.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.9°C

ملک عدالتی آمریت کی جانب بڑھ رہا ہے؟

شائع April 22, 2013

adliya kee aamriyat 670
کیا ایسا نہیں لگتا کہ ملک میں اب عدلیہ کی آمریت کا آغاز ہورہا ہے، جسے روایتی طور پر دائیں بازو کی تمام قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے؟ —. اللسٹریشن: جمیل خان

ہمارے ہاں ابتداء سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ ملک کی بربادی کا معاملہ درپیش ہو تو فوج اور سویلین اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کے کندھوں پر سارا ملبہ ڈالتی آئی ہے۔ یہ بھی ہمارے ملک کی گویا ایک رسم بن چکی ہے کہ سیاستدان اقتدار تک براہ راست پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ فوج کا سہارا نہ ملے!

مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے واحد سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ  فوج نے اپنا منہ کالا ہونے سے بچنے کے لیے بھٹو کے مضبوط کاندھوں کا سہارا لیا تھا۔

پھر ضیاءالحق کے طیارہ حادثے کے بعد بے نظیر کی پہلی حکومت بھی فوج کی آشیرواد سے قائم ہو سکی تھی، جس میں غلام اسحٰق خان اور صاحبزادہ یعقوب خان اُس حکومت کوفوج سے جہیز میں ملے تھے۔

پیپلز پارٹی کی موجودہ گورنمنٹ بھی اسی کھیل کا ہی تسلسل ہے کہ جب فوجی و سول اسٹیبلشمنٹ پر عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ بڑھا کہ اب عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کیا جائے تو اس ظلم کو انجام دینے کے لیے جمہوریت کے کندھوں کو استعمال کیا گیا۔

یہ بات واضح ہوکر سامنے آچکی ہے کہ  ملکی اقتدار کے تین ستونوں کے ساتھ ایک چوتھے ستون نے بھی سر اُبھارا ہے اور اپنے آپ کو منوانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ جس کی ایک مثال پرویز مشرف پر مقدمہ اور ان کی گرفتاری ہے۔

قوت مقتدرہ فوجی ہو یا سول بیوروکریسی پر مبنی، دونوں کا مطمع نظر ملک میں رجعت پسند گروہوں کی سرپرستی ہی رہا ہے۔ ان دونوں ستونوں نے ہمیشہ سے ہی ماضی پرست، خرد دشمن گروہ اور ان کے لیڈروں کی دامے درمے سخنے مدد کی ہے، جبکہ ملک میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کا پرچار کرنے والے سیاستدانوں کی تضحیک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں  کیا۔

مثال کے طور پر قیام پاکستان کے بعد سے ہی مشرقی پاکستان فوج کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا اور ملک کے مشرقی بازو کے شہریوں کے ساتھ سوتیلے سے بھی بدتر سلوک روا رکھا گیا۔ آج ہر عام و خاص یہ کہتا ہے کہ “ادھر تم ادھر ہم” کا نعرہ بھٹو نے لگایا تھا، حالانکہ یہ تو فوجی اشرافیہ کے دل کی آواز تھی جو برسوں سے اس کے لیے راہ ہموار کررہی تھی۔

اسے امریکن سی آئی اے کے ساتھ مل کر اسلام کی ایک ایسی وضع جو تیار کرنی تھی جو نہایت بدوضع اور ہیبت ناک تھی۔ مشرقی بازو کے ساتھ جُڑے رہنے سے شاید ایسا ممکن نہ ہوتا۔

وہاں تو مولانا بھاشانی جیسے باریش لوگ موجود تھے جو سوشلسٹ نظریات کا پرچار کرتے تھے۔ چنانچہ جہاد کے نام سے امریکی سی آئی اے کا تیار کردہ مکروہ کھیل  کھیلنے کے لیے اس ملک کے ٹکڑے کر دیے گئے اور بہت چالاکی کے ساتھ سارا الزام  ذوالفقار علی بھٹو کے سر پر ڈال دیا۔

حالانکہ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہےجن کا حافظہ گیارہ سالہ دور سیاہ میں محفوظ رہا ہے، اور انہوں نے مذہب کے نام پر کی جانے والے برین واشنگ کے عمل سے خود بچائے رکھا ہے۔

ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے کسی بیان میں ایسا نعرہ نہیں لگایا تھا، انہوں نے لاہور میں جشن فتح کے عنوان سے نکالے گئے ایک جلوس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “بنگالیوں نے مغربی پاکستان کی اتنے عرصے غلامی کی، مگر ہم بنگالیوں کی غلامی نہیں کریں گے بلکہ برابری کی سطح پر اُن کے ساتھ رہیں گے۔”

بھٹوکے اس بیان  کو روزنامہ  آزاد لاہور نے جو اُس وقت ایک تیسرے درجے کا اخبار تھا، یوں شہہ سُرخی کی زینت بنادیا کہ “اُدھر تم، اِدھر ہم”۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات شاید یہ ہوگی کہ اس وقت اس اخبار کی سرخی کو کسی نے نوٹ نہیں کیا اور نہ ہی کہیں اس کو دوہرایا گیا۔ اُس وقت اس اخبار کے ایڈیٹر عباس اطہر تھے، ماہنامہ ‘قومی ڈائجسٹ ’ کے شمارہ جولائی 2008ء میں شایع ہونے والے ایک انٹرویو میں اس حوالےسے تفصیلات بیان کی تھیں۔

اکثر لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ضیاءالحق کی فوجی آمریت میں اس سرخی کو بہت زیادہ اُچھالا گیا، اور ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت پر ملک توڑنے کا الزام عائد کرنے میں اس سے جس طرح مددلی گئی، اس وقت عباس اطہر کے ذہن میں اس کا گمان تک نہیں ہوگا۔

آج بھی یہی ہورہا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں خوداعتمادی کی کمی ہے، اس لیے کہ ان میں سے اکثر کے کردار شفاف نہیں ہیں، یا پھر یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ملک کا ماحول ہی ایسا بن گیا ہے کہ اگر کچھ کرنا ہے تو فوج کے ساتھ چلنا لازم ہے، ورنہ کتنے ہی باصلاحیت لوگ بے دردی سے مار دیے گئے اور آج ان کا ذکر بھی نہیں ہوتا۔

آج بھٹو کو ملک توڑنے کا ذمہ دار اور سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ سی آئی کے ہاتھوں بھٹو کھیل رہے تھے یا جماعت اسلامی کے پرہیزگار و متقی باریش علمائے کرام ؟

اس زمانے میں یہی جماعت اسلامی تو تھی جو آج ایٹم بم کو ایسا لگتا ہے کہ گود لے بیٹھی ہے، اسی ایٹم بم کی تیاری  کا آغاز کرنے والے بھٹو اور ان کی فیملی کے لیے انہی لوگوں نے فحش القابات ایجاد کیے تھے اور عوام کو کہا جاتا تھا کہ اب گھاس کھانے ہی کو ملے گی کہ یہ ایٹم جو بنا رہے ہیں۔

کیا عجیب زمانہ تھا، آج کسی کو بتایا جائے تو شاید یقین ہی نہ کرے کہ اس دور میں  امریکہ پر تنقید کرنے والوں اور اس کو سامراج قرار دینے والوں کورجعت پسند گروہ کے علماء اور ان کے پیروکار دہریہ قرار دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ یہی دائیں بازو کی بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کے رہنما ہی تو تھے کہ جن کے ہمنوا اخبارات میں فیض احمد فیض کو ان دنوں فیضوف لکھا جاتا تھا۔

آج ھی یہی لوگ ہیں کہ جن کا جنم ہی گویا امریکی لیبارٹری میں ہوا تھا، بظاہر امریکی مخالفت کے نعرے لگا کر بباطن اسی امریکہ کو بالواسطہ فائدہ پہنچارہے ہیں!

آج دائیں بازو کی بنیاد پرست قوتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے فوج، بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے ہمراہ ایوان اقتدار کے بنیادی ستونوں میں عدلیہ کو بھی ایک ستون کی حیثیت سے جگہ دینے کے لیے متفق ہوچکی ہیں، فوج نے بھی لگتا ہے کہ اپنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اگر یہی سلسلہ بلاروک ٹوک جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ ملک میں آئندہ آمریت فوج کے بجائے عدلیہ کی جانب سے مسلط کی جائے گی۔

بنیاد پرستوں کے ساتھ بہت سے روشن خیال اور پروگریسیو افراد بھی جو آزاد عدلیہ کے نعرے لگارہے تھے، تب وہ ایسی آمریت کا کیا جواز پیش کریں گے؟

جواز تو اب بھی شاید کسی کے پاس نہیں ہے کہ ایک مطلق العنان آمر سے حلف لینے والے اور اس کو آئین میں بلاروک ٹوک من مانی ترمیم کرنے کا اختیار دینے والے ججز اسی ڈکٹیٹر کے مقدمات کا فیصلہ کیوں کر دے سکتے ہیں؟

مثال کے طور پر بعض مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اینٹی ٹیررازم کورٹ کے جج ایک ایسے شخص کے بھائی بتائے جاتے ہیں، جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ اُن پر بلیک واٹر کو اسلحہ سپلائی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک دوسرے جج جنہوں نے پرویز مشرف کی ضمانت نامنظور کی، اُن کے متعلق بتایا جارہا ہے کہ  وہ  لال مسجد کے پر فوجی آپریشن کے خلاف مقدمے کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔

یاد رہے کہ لال مسجد کے حوالے سے بھی اب وفاقی شریعت کورٹ کے جج جسٹس شہزاد شیخ کی سربراہی میں قائم کمیشن کی رپورٹ شایع ہوگئی ہے، جس کے مطابق لال مسجد آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والوں میں کوئی ایک خاتون بھی شامل نہیں تھی۔ جبکہ برسوں سے مذہبی طبقہ اس آپریشن میں معصوم بچیوں کی شہادت کے نوحے پڑھے جا رہا ہے، اب ان کے دعووں کی قلعی کھل چکی ہے۔

ہم ایک بار پھر یہی سوال کریں گے کہ کیا ایسا نہیں لگتا کہ ملک میں اب عدلیہ کی آمریت کا آغاز ہورہا ہے، جسے روایتی طور پر دائیں بازو کی تمام قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے؟

اس لیے کہ اصغر خان کیس کے ملزموں کے خلاف اس قدر سخت اور فوری اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ جس طرح پرویز مشرف کو گھیر گھار کر قید کردیا گیا ہے۔ اور پرویز مشرف پر مقدمہ چلانا ہے تو سب سے پہلے بارہ اکتوبر کے اس اقدام کے خلاف چلایا جائے جب کہ اس نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دی تھی؟

عدلیہ کی معطلی اور ججز کو نظربند کرنے کا معاملہ یقیناً سنگین ہے، لیکن نوازشریف کی جماعت کی جانب سے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ پر حملے کا معاملہ بھی کم سنگین نہیں، پھر اس واقعے کے ملزمان اور ان کے پشت پناہ افراد کو کیوں آزادی ملی ہوئی ہے اور وہ انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں، اُن کا باسٹھ تریسٹھ کی دو دھاری شقوں نے بھی کچھ نہیں بگاڑا۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

جمیل خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (15) بند ہیں

Wasim Siddiqui Apr 22, 2013 01:35pm
This column of Mr. Jameel Khan is the voice of my heart.
Syed Apr 22, 2013 02:48pm
عدلیہ کی مطلق العنانیت، فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردوں کی مسلسل رہائی اور حمایت، ملکی سیاست اور معاملات میں مسلسل جانبدارانہ مداخلت، سستے، فوری اور دُور رس اثر کے حامل عدالتی انصاف کی مُستقل بنیادوں پر مسلسل عدم فراہمی پر، وطن بھر کے محروم عوام کا ایک بھرپور طمانچہ۔۔۔ آمریت کے منہ پر۔۔۔
pakistanize Apr 22, 2013 07:17pm
Indeed Sir. I just wish majority of our media men were like you. Great article. I will reblog it on my blog, pakistanize.wordpress.com
Israr Muhammad Khan Apr 22, 2013 08:57pm
چونکہ ایسا پاکستان میں پہلی مرتبۂ هورها هے اس لوگوں کو عجیب لگ رہا هے هم اس کو عدالتی آمریت نہیں کهۂ سکتے البتہ هم اس عدالت کی اپنی زمہ داریاں پوری کرنا کهۂ سکتے هیں جوکہ قابل تعریف هے اور اس سلسلے هم کو عدالت کی حمایت کرنی چاہیے رہی اصغرخان کیس تو اس میں تو عدالت اپنا فیصلہ سنا چکی هے
Israr Muhammad Khan Apr 22, 2013 09:11pm
هندوستان کے آرمی چیف کو اس بیان هٹایا گیا تھا که ملک کو اندرونی حطره هے جو ایک عام سی بات تھی لیکن بھارت کے پارلیمان نے متفقہ طور پر آس کو هٹانے کی منظوری دی تھی اور کہا تھا که بیان دینا فوج کی ذمہ داری نہیں اور نه احتیار هے ‏2012‎میں افغانستان کے امریکی فوجی کمانڈر نے افغانستان پالیسی کے خلاف صرف بات کی اوباما نے اسی دن اس جرنیل کو سبکدوش کردیا همارے فوج کیاکیا نہیں کرتی لکهنے کی ضرورت نہیں‎
انور امجد Apr 23, 2013 12:34am
ایک جمہوری ملک کے نظام حکومت میں سیپیریشن آف پاورز میں لیجسلیچر اور ایگزیکیٹیو کے ساتھ جوڈیشری برابر کی حصّہ دار ہوتی ہے۔ عدلیہ اپنے اختیارات استعمال کرنے میں حق بجانب ہے اور اس کو آمریت نہیں کہ سکتے۔ عدلیہ کا کام آئین اور قانون کی حفاظت کرنا ہے اور وہ یہ کام کر رہی ہے۔ اسے دائیں بازو کی حمایت نہ کہیں۔ اگر آپ پاکستان کا آئین دیکھیں تو اس کی اساس قرآن اور سنّت ہے کیونکہ پاکستان ایک نطریاتی ملک ہے۔ تمام سرکاری اہلکاروں کے حلف میں اس کی حفاظت کرنے کا عہد شامل ہوتا ہے۔ بھارت کی فوج کی مثال نہ ہی دیں تو بہتر ہے۔ پچھلے بیس سال سے آٹھ لاکھ بھارتی فوج کشمیر میں بیٹھی ہے۔ کیا کسی بھارتی سیاستدان یا میڈیا کی ہمّت ہے کہ اس کے خلاف کچھ بولے؟ جتنی شخصی اور اظہار رائے کی آزادی پاکستان میں ہے اتنی مغربی ملکوں میں بھی نہیں۔
imamism Apr 23, 2013 02:18am
بہت ہی اعلٰی!
Shahid Irshad Apr 23, 2013 03:54am
Brilliant feature with deep insight. Spot On! Bravo!
Israr Muhammad Khan Apr 23, 2013 06:21pm
پاکستان میں طاقت کا سرچشمۂ فوج هے اور دوسرے جمہوری ممالک میں فوج حکومت کے تابع هوتی هے میں نے تو صرف یۂ بات سمجھانے کی کوشش کی هے
Raheel Afzal Apr 23, 2013 06:50pm
“The HONORABLE Judicial Terrorism” The officially deputed Guards (of the former President of Pakistan & Chief of the Army, General Pervez Musharraf) attacked and beat with shoes by a bunch of “Judicial Terrorists” (the Hired lawyers) inside the premises of Supreme Court of Pakistan The Commanding Officer of the Soldiers (beaten by the “Judicial Terrorists”) has so far done nothing to defend the Dignity of his troops, nor has the DG Rangers or the ISPR moved neither any FIR against the Lawyers has so far been registered in any police station. The (“Honorable”?) Court did not take any notice of that attack, although when Ali Musa Gilani had been arrested by ANF from Outside the Court Premises, in the notorious Ephedrine case, the “Honorable” judges had jumped with shocking speed to claim that the Sanctity of the Supreme Court has been violated and they ordered the ANF to produce the accused before them in one hour and when the order has been obeyed, the accused was granted a bail within minutes. The facts prove that Taliban and Criminal minded Judges have their “Terrorist Wings” & commit “Judicial terrorism” in court premises.
Raheel Afzal Apr 23, 2013 06:50pm
جس طرح کراچی میں وکلاء کی اکثریت ’’ غیر مقامی‘‘ ہے، ان کے کردار اور روابط کی جانچ اور تصدیق کا کوئی موثر نظام بھی موجودنہیں ہے اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ان غیر مقامی وکلاء میں اکثر کے ’’رزق‘‘ کا دار و مدار منشیات فروشوں،چور،ڈاکوؤں، کار چوروں، شرابیوں، زانیوں اور لینڈ مافیا کے مقدمات کی ’’پیروی‘‘ پر کم اور ’’Processing ‘‘ پر زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’ کردار اور روابط‘‘ کی جانچ اور تصدیق کا کوئی موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ تک میں ’’طالبان‘‘ ذہنیت جج سرایت کر چکےہیں؛ اس کی بہترین مثال لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ شریف ہے جس نے ریٹائر ہوتے ہی گورنر پنجاب کے قاتل ممتاز قادری کو فخریہ طور پر ہیرو قرار دیتے ہوئے اس کے دفاع کے لئے اپنی خدمات پیش کردی تھیں۔ یہ وہی جسٹس خواجہ شریف ہے جس کے بل پر ’’سرمایا کار‘‘ نے ’’ قاتلانہ حملے‘‘ کا ڈرامہ رچواکر صدر زرداری کو پھنسوانےکی کوشش کی تھی۔ ملک کی سیاست میں صحافیوں کےبعد عدلیہ پر کی جانے والی ’’سرمایا کاری‘‘ نے زر خرید ججوں کی زیر سرپرستی ’’وکلا گردی‘‘ کو ’’عدالت مافیا‘‘ بنادیا ہے جس کے ذریعے ’’سرمایا کار‘‘ سیاستدان جب اور جس کو بھی چاہے، عدالت میں داخل ہونے سے رکوادیتا ہے یا اس پر حملہ کرادیتا ہے اور ضرورت پڑنے پر ’’ناپسندیدہ‘‘ ججوں کو بھی تشدّد کا نشانہ بنواکراپنا من پسند نتیجہ حاصل کرلیتا ہے اور عدالتِ عالیہ کی مقعدِ عالیہ پر ’’باوجوہ‘‘ جُوں بھی نہیں رینگتی۔ اس صورتحال میں اگر جنرل مشرف یا ان جیسا کوئی اہم فرد اپنے اوپرعائد الزامات کی صفائی کے لئے عدالت میں آتا ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ ’’عدالت مافیا‘‘ میں موجود کوئی بھی طالبان ذہنیت ’’ممتاز‘‘ اس کو قتل کرنے کی کوشش کرے گا۔
Israr Muhammad Khan Apr 24, 2013 07:54pm
چیف جسٹس نے مشرف کے مقدمہ کے بینچ سے اپنے آپ کو علیہدہ کیا جو که اخلاقی تقاضا تھا قانونی نہیں یکطرفہ پروپیگینڈا نہیں کرنا چاہیے عوامی مسلم لیگ جسکا کوئی وجود نہیں هے کے خود ساختہ کارکن عدالت کے توہین آمیز نعرے لگا رہے تھے اور مقام پولیس خاموش تماشائی دیکھتے رہے اگر اسی دوران کسی نے جزبات میں کسی پر تشدد کیا هے تو قابل مذمت هے لیکن اس سے یه مطلب نکالنا غلط هے که عدالت فریق هے یه عدالت کی توہین هے اور اس پروپیگینڈے ایک خاص زاویے سے اچھالنے کی سازش هورهی هے
Israr Muhammad Khan Apr 24, 2013 08:00pm
چیف جسٹس نے مشرف کے مقدمہ کے بینچ سے اپنے آپ کو علیہدہ کیا جو که اخلاقی تقاضا تھا قانونی نہیں یکطرفہ پروپیگینڈا نہیں کرنا چاہیے عوامی مسلم لیگ جسکا کوئی وجود نہیں هے کے خود ساختہ کارکن (جوکه پیسے کے لوگ تھے ) عدالت کے خلاف توہین آمیز نعرے لگا رہے تھے اور مقام پولیس خاموش تماشائی کی مانند دیکھتے رہے اگر اسی دوران کسی نے جزبات میں کسی پر تشدد کیا هے تو یه قابل مذمت هے لیکن اس سے یه مطلب نکالنا غلط هے که اس میں عدالت فریق هے یه عدالت کی توہین هے اور اس طرح کے پروپیگینڈے ایک خاص زاویے سے اچھالنے کی سازش هورهی هے تاکہ عدالت کو بدنام کیا جاسکے
ali nawaz isa khail Apr 24, 2013 09:11pm
MASHA ALLAH zabardat article par aap ko khiraj e tehseen peish krta hun, tamaam article nehayat hi sach aur haqeeqat par mabni hey, ALLAH se dua hey qoam ki aankhen khulain isay parh kar AAMEEN
Raheel Afzal Apr 26, 2013 05:18pm
’’ آزاد عدلیہ کا امتحان ‘‘ جامعہ حفصہ کی نقاب پوش خواتین نےاسلام آباد کی اخلاقی صفائی کی ابتدا کرتے ہوئے جب لال مسجد کے طالبان ساتھیوں کےساتھ مل کر آنٹی شمیم کےگھرسے ’’ گند‘‘ اُٹھائی تھی تو اس میں آنٹی شمیم کے ساتھ اس کی بیٹی اور بہوکے علاوہ ایک چھ سال کی لڑکی بھی شامل تھی؛ آنٹی شمیم، اس کی بیٹی اور بہو کی خیرہے، فکر اس ’’ چھ سال کی لڑکی‘‘ کی ہےجس کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا ہے۔ یقین کامل ہے کی ’’چھ سال‘‘ کی لڑکی لازماً کسی مولوی کے ہتھے چڑھ گئی ہوگی کیونکہ ’’سنّت رسول‘‘ پر عمل کا اتنا نادر موقع کوئی ’’مسلمان‘‘ ضائع نہیں کرسکتا تھا۔ کیا آج ’’عدالتِ عالیہ‘‘ لال مسجد کیس کا جائزہ لیتے ہوئے اس لڑکی کو برآمدکرائے گی یا اپنی ’’مقعدِ عالیہ‘‘ کو طالبان سے بچائے گی؟ جامعہ حفصہ کی نقاب پوش خواتین نےاسلام آباد کی اخلاقی صفائی کی کرتے ہوئے لال مسجد کے طالبان ساتھیوں کےساتھ مل کر آنٹی شمیم، اس کی بیٹی، بہو اور چھ سال کی لڑکی کو ہی اغوا نہیں کیا تھا بلکہ اس سے پیشتر میڈم طاہرہ پر بھی ہاتھ صاف کیا تھا لیکن شوکت عزیز کابینہ اور علماء کی ’’باہمی‘‘ مداخلت پر یہ لوگ میڈم طاہرہ کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگئے تھےکیونکہ اس نے اپنی ڈائری ( ’’کلائنٹ لسٹ‘‘ ) کو کتابی صورت میں شائع کرانے کی دھمکی دی تھی اور وہ اپنی ڈائری کی کاپی پہلے ہی ایک معروف اور با اثر پبلشر کو دے چکی تھی۔ واضح رہے کہ اس کی ’’کلائنٹ لسٹ‘‘ میں مولانا سمیع الحق (المعروف ’’maulana sammy sandwich‘‘ ) کے علاوہ معزز وزرا، سرفروش افسران اورعزت مآب جج صاحبان کے نام شامل تھے ۔ معاملات میں نازک موڑ اس وقت آیا تھا جب ان لوگوں نے اپنے اصل سرپرستوں کے کہنے پر اسلام آباد میں ’’ مصروفِ عمل‘‘ فلپائینی اور تھائی عورتوں کو نظر انداز کرکے چینی عورتوں کو اغوا کیاتھا اور چینی حکومت کے احتجاج کی وجہ سے چند ’’مجاہدین‘‘ کو گرفتار کرناپڑا تھا، جواباً ’’مجاہدین‘‘ نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک فرد کو ہلاک کرکے چار کو یرغمال بناکر اپنے ساتھیوں کو رہا کرایا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025