لال مسجد آپریشن کی ذمے دارمشرف حکومت تھی
اسلام آباد: عسکری ذرائع کو کلین چٹ فراہم کرتے ہوئے، لال مسجد کمیشن نے کہا ہے کہ اس آپریشن کی مکمل ذمے دار سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف، سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز اور اسے کے سیاسی اتحادی تھے۔ 2007 میں کئے گئے اس ملٹری آپریشن میں ایک سو تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کمیشن وفاقی شریعی عدالت کے جسٹس شہزادہ شیخ پر مشتمل تھا جس نے کہا کہ اس آپریشن میں ذمے داروں کیخلاف قتل کے مقدمات قائم کئے جائیں اور سابق حکمرانوں پر زور دیا جائے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ ادا کریں۔
بائیس مارچ 2013 کو 304 صفحات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ اس افسوسناک واقعے کے چھ سال بعد بھی اس کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے لاپرواہی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ رویہ غیر ذمے دارانہ ہے۔
' ریکارڈ سے واضح ہے کہ اقتدار کے حامل اتحادی پارٹنر، خصوصاً وزیرِ اعظم اور کابینہ ( اس معاملے پر) حتمی طور پر اندھیرے میں نہیں تھی۔' رپورٹ میں کہا گیا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ صدر، وزیرِ اعظم، کابینہ اور خصوصاً وزیرِ داخلہ، متعلقہ وزرا اور سیاسی جماعتیں اس آپریشن سے آگاہ نہ تھیں۔ مفروضے کے طور پر اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو بھی اس واقعے کے متعلق سیاسی لیڈرشپ کی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
' رپورٹ میں تحریرہے ہے کہ وزیرِ اعظم اور کابینہ اراکین ' اس جرم میں شریک ہیں۔'
کمیشن نے کہا کہ شوکت عزیز اس ضمن میں کابینہ اور اتحادی ساتھیوں سے رابطے میں تھا۔
فوجی آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا ہے کہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے اسلام آباد انتظامیہ نے فوج کو بلانے کیلئے تمام قانونی تقاضے پورے کئے۔ آرٹیکل 245 تحت وفاقی حکومت بیرونی حملے یا سول اداروں کی مدد کیلئے فوج طلب کرسکتی ہے۔
مسلح افواج کے رکن ہونے کی حیثیت سے ، ہر فوجی پاکستانی آئین کی پاسداری کا عہد کرتا ہے۔ اور رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا تھا۔
رپورٹ میں لال مسجد آپریشن کے دوران غلط اقدامات کے ازالے کے لئے جزوقتی اور طویل المدتی اقدامات پر زور دیا گیا ۔
جزوقتی اقدامات کے تحت، کمیشن نے کہا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو اسلامی شریعت کے لحاظ سے معاوضہ ادا کیا جائے۔ ساتھ ہی معذور یا زخمی ہونے والے فرد کے معالجے اور معاوضے کا انتظام بھی کیا جائے۔
رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ جس پلاٹ پر جامعہ حفصہ تھی وہ دوبارہ انہی کے حوالے کیا جائے، ساتھ ہی کیپیٹل ڈولیپمنٹ اتھارٹی ( سی ڈی اے ) بھی پرانی جگہ پر جامعہ حفصہ کے لئے عمارت تعمیر کرسکتی ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ بھی اس کا حکم دے چکی ہے۔
طویل المدتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مدارس کے سلیبس کو وسعت دے کر ان میں جدید سائنسی علوم کو جگہ دی جائے، مدارس میں میرٹ پر مبنی امتحانی نظام وضع کیا جائے، اسے قومی نظام (تعلیم) سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ دیگر اداروں کی طرح ان کی سند بھی تعلیمی نظام کے ہم پلہ قرار دیا جاسکے
یہ بھی کہا گیا ہے کہ آبادی کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ شہری اور دیہی علاقوں میں مدارس اور مساجد کیلئے پلاٹ رکھے جائیں۔
تبصرے (2) بند ہیں