امن معاہدہ مبہم ہے: شامی اپوزیشن
انقرہ: شام کی اپوزیشن کے نمائیندوں نےملک میں اقتدار کی تبدیلی کی معاہدے کی چند شقوں کو مثبت قراردیتےہوئے اس امن منصوبے کو مبہم اور گنجلک کہا ہے۔ شام کی قومی کونسل کی خاتون ترجمان بسمہٰ قدمانی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس امن منصوبے میں شامل چند اہم نکات بھی غیر واضح ہیں اور فوری اور حقیقی عمل کے لئے بھی یہ منصوبہ واضح ہے۔
ہفتے کے روز جینیوا میں منعقدہ ایک اہم اجلاس میں عالمی طاقتیں اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے پیش کردہ امن فارمولے کی تائید کرچکی ہیں جس میں شام کی موجودہ حکومت کو بھی اقتدار فارمولے میں شامل کیا جائے گا تاہم، مغربی ممالک نئی اتحادی حکومت میں صدر بشار الاسد کا کوئی کردار نہیں دیکھنا چاہتے۔
دوسری جانب روس اور چین دو مرتبہ سیکیوریٹی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کرچکے ہیں۔ دونوں ممالک کا موقف ہے کہ ہے کہ شام میں کسی قسم کی تبدیلی صرف عوام کی جانب سے ہونی چاہئے ناکہ اسے آمرانہ انداز میں لاگو کیا جائے۔ لیکن ان دونوں ممالک نے ہفتے کو امن معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔
قدمانی نے مزید کہا کہ امن معاہدے کی مثبت بات یہ ہے کہ اب اسد اور اس کے خاندان کو کوئی فرد شام پر مزید حکومت نہیں کرسکے گا۔ جبکہ دوسری اچھی بات یہ ہے کہ ہر قسم کی تبدیلی شامی عوام کی اُمنگوں کے مطابق ہی کی جائے گی۔ تاہم قدمانی نے یہ کہا کہ پورا منصوبہ فوری عمل کے لئے مبہم اور غیر واضح ہے۔
اس سے قبل شام میں حزبِ اختلاف کے گروپس نے اقوامِ متحدہ کے امن منصوبے کو وقت کا زیاں قراردیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔
شام میں حزبِ اختلاف کے ایک اہم رہنما ہیثم مالیح نے اس امن معاہدے کو وقت ضائع کرنے کا عمل قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اور اتوار کے روز کہا ہے کہ وہ صدر اسد اور اسکی خونی حکومت کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ دیگر اپوزیشن رہنماوں نے امن معاہدے پر عمل درآمد کےوقت کے متعلق بھی اعتراضات اُٹھائے ہیں۔
اجلاس اور اموات
ہفتے کے روز بھی جب جینیوا میں امریکہ، روس اور چین سمیت عالمی طاقتیں شام کے مستقبل پر مذاکرات کررہی تھیں اس روز بھی دمشق کے اطراف میں تقریباً ایک سو بیس افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت سویلینز کی تھی جبکہ اتوار کے روز نو افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔